کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 52
(یعنی صفاتِ الٰہیہ کے معانی کے علم کی بابت) تفویض کے قائل نہ تھے اور نہ ہی وہ ایسے کلام کو پڑھتے تھے جس کے معانی کا انہیں فہم و ادراک نہ تھا بلکہ وہ کتاب و سنت کی نصوص (کو پڑھتے تھے اور ان) کے معانی کو (بھی) سمجھتے تھے اور وہ ان معانی کو رب تعالیٰ کی ذات کے لیے ثابت کرتے تھے البتہ اس کے بعد ان صفات کی حقیقت یا کیفیت کو رب ذوالجلال کے سپرد کر دیتے تھے۔ جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے جب رب ذوالجلال کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ (حقیقت افروز) جواب دیا: ’’استواء (کا معنی کیا ہے؟ وہ سب جانتے ہیں اور وہ) معلوم ہے البتہ (ربِ ذوالجلال کے حق میں استواء کی) کیفیت (کیا ہے؟ وہ) مجہول ہے (اور ایسی باتوں کا سوال کرنا بدعت ہے)۔ [1]
تکییف و تمثیل کامعنی اور ان دونوں میں فرق:
(علامہ رحمہ اللہ کی عبارت) ’’ومن غیر تکییف ولا تمثیل‘‘ (کا نحوی اعتبار سے ’’من غیر تحریف ولا تعطیل‘‘ پر عطف ہے اور ان دونوں معطوف اور معطوف علیہ کا عطف پہلے ’’من غیر تحریف‘‘ پر عطف ہے اور یہ عطف معطوف ’’الایمان‘‘ مصدر کے متعلق ہیں اور تکییف کا لفظی کیفیت اور حالت کو بیان کرنا اور تمثیل کا لغوی معنی کسی کے ہم صفت اور مشابہ قرار دینا ہے۔) پس ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تکییف رب تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اس بات کا اعتقاد رکھنا کہ رب تعالیٰ کی صفات کی یہ یہ کیفیت ہے یا (یہ مطلب ہے کہ) آدمی رب کی صفت کی کیفیت کے بارے میں (اگر کوئی) سوال کرے (تو اس کو تکییف کہتے ہیں ۔ اب اہلِ سنت والجماعت کے تکییف کے قائل نہ ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ نہ تو وہ رب کی کسی صفت کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں اور نہ اس کے بارے میں سوال ہی کرتے ہیں )۔ تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا اعتقاد رکھا جائے کہ رب تعالیٰ کی صفات مخلوقات کی صفات جیسی ہیں ۔
یاد رہے کہ ’’من غیر تکییف‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ اہلِ سنت والجماعت مطلقاً رب تعالیٰ کی صفات کی کیفیات کا انکار کرتے ہیں کیوں کہ (یہ امر یہ بھی ہے کہ) ہر شے کو کوئی نہ کوئی کیفیت ضرور ہوتی ہے۔ تو اب کیفیت کی نفی سے مراد رب تعالیٰ کی صفات کی کیفیات کے بارے میں اپنے علم کی نفی کرنا ہے۔ کیوں کہ رب تعالیٰ کی ذات و صفات کی کیفیت کو سوائے اس کی پاک ذات کے کوئی
[1] اخرجہ البیہقی فی الاسماء والصفات: ۵۱۵۔ عن الامام مالک باسنادٍ جوَّدہ الحافظ فی الفتح: ۱۳/ ۴۰۷۔