کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 51
(مذکورہ بیان کردہ تفسیر و تفصیل کی روشنی میں ) تحریف اور تعطیل میں ’’عموم خصوص مطلق‘‘[1] کی نسبت ہے کہ تعطیل تحریف سے عام ہے (لہٰذا وہ عام مطلق کہلائے گا جب کہ تحریف خاص مطلق، اور) اس کی وجہ یہ ہے کہ (تعطیل کا ہر ہر فرد تحریف پر صادق آ رہا ہے کہ) جب بھی تحریف پائی جائے گی تعطیل بھی پائی جائے گی مگر اس کے بالعکس نہ ہوگا (کہ جب بھی تعطیل پائی جائے گی تحریف بھی ضرور پائی جائے گی کہ بعض تعطیل تحریف بھی ہوگی۔ لہٰذا ہر تحریف تعطیل بھی ہے اور ہر تعطیل تحریف نہیں ۔ فافہم) اس مذکورہ تفصیل کی روشنی میں جو شخص معنی باطل کو ثابت کرے اور معنی حق کی نفی کرے وہ تحریف اور تعطیل دونوں کا مرتکب ہوگا اور جو کتاب و سنت میں وارد صفاتِ الٰہیہ کی تو نفی کرے اور یہ گمان کرے کہ ان کا ظاہر مراد نہیں (جوکہ تعطیل ہے) جب کہ ان کا کوئی دوسرا (باطل) معنی بیان نہ کرے (جو تحریف کہلاتی ہے) تو وہ تعطیل کا تو مرتکب ہوگا مگر تحریف کا مرتکب نہ ہوگا اور اس کو علماء کرام نے ’’تفویض‘‘ کا نام دیا ہے (کہ صفاتِ الٰہی کی تو نفی کی جائے اور کہا جائے گا کہ ان کا ظاہری معنی مراد نہیں مگر ان مذکورہ الفاظ کا معنی کیا ہے؟ اس کی کوئی ناحق توجیہ بیان کرنے سے گریز کرتے ہوئے اور تحریف کے ارتکاب سے بچتے ہوئے یہ کہا جائے کہ ان الفاظ سے کیا مراد ہے؟ اس کو ہم خود اللہ پر چھوڑتے ہیں ) تفویض کو اسلاف کا مذہب قرار دینا خطا ہے: (یہیں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ) یہ کہنا کہ اسلاف تفویض کے قائل تھے۔ جیسا کہ متاخرین اشاعرہ [2] نے اس کو اسلاف کی طرف منسوب کیا ہے، یہ غلط ہے۔ کہ اسلاف’’علم معنی‘‘
[1] عموم خصوص مطلق وہ نسبت ہے جس میں ایک کلی تو دوسری کلی کے ہر ہر فرد پر صادق آئے پر دوسری کلی پہلی کلی کے ہر ایک فرد پر صادق نہ آئے بلکہ بعض پر آئے اور بعض پر نہ آئے۔ جیسے حیوان اور انسان کہ ان میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے کہ حیوان تو انسان کے ہر فرد پر صادق آ رہا ہے کہ وہ حیوان بھی ہے مگر انسان حیوان کے ہر فرد پر صادق نہیں آ رہا ہے۔ اب جو کلی دوسرے ہر فرد پر صادق آئے اسے عام مطلق اور دوسری کو خاص مطلق کہتے ہیں ۔ ’’تیسیر المنطق، ص: ۱۸۔‘‘رہ گیا تحریف اور تعطیل میں عام مطلق اور خاص مطلق کا بیان تو خود اس کو خود شارح رحمہ اللہ نے متنِ کتاب میں بیان کر دیا ہے۔ [2] اشاعرہ: یہ ’’اشعریہ‘‘ کی جمع ہے۔ جو متکلمین کا ایک فرقہ ہے جو ابو الحسن اشعری کی طرف منسوب اور معتزلہ کے افکار و عقائد کے خلاف ہے۔ (القاموس الوحید، ص: ۸۶۸) ۔