کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 50
تحریف و تعطیل کی نحوی ترکیب اور ان کی لغوی و اصطلاحی تشریح: (علامہ رحمہ اللہ کی مذکورہ عبارت میں ) ’’من غیر تحریف‘‘ کا لفظ ما قبل میں مذکور پہلے مصدر) ’’الایمان‘‘ کے متعلق ہے (گویا کہ مرتب عبارت یوں ہے: ’’ومن الایمان باللّٰہ من غیر تحریف‘‘…) اور مطلب عبارت کا یہ ہے کہ اہلِ سنت والجماعت رب تعالیٰ کی تمام صفات الحصیہ پر اس طور پر ایمان رکھتے ہیں جو تمام معانی باطلہ سے خالی ہے اور وہ رب تعالیٰ کی صفات کو کسی قسم کی تمثیل کے بغیر ثابت کرتے ہیں اور ذاتِ باری تعالیٰ کو تعطیل کے باطل معنی سے منزہ اور پاک قرار دیتے ہیں ۔ لفظِ تحریف کو دراصل عربوں کے اس قول سے لیا گیا ہے: ’’حَرَفْتُ الشَیْئَ عَنْ وَجْہِہِ حَرفًا‘‘ اور یہ (ثلاثی مجرد سے ہے جس کا باب) ضرب یضرب ہے، (اس کو) تشدید (کے ساتھ بابِ تفعیل سے لانا) مبالغہ کے لیے ہے اور اس کا معنی ’’ہٹانا، منحرف کرنا، اصل سے ہٹا دینا اور رُخ پھیر دینا ہے‘‘ اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب آدمی ایک شے کو موڑ دیتا اور بدل دیتا ہے۔ (جب کہ اصطلاح میں ) تحریف ِکلام کو اس کے متبادر (اور ظاہر) معنی سے ایسے معنی کی طرف مرجوح احتمال کے ساتھ موڑتا ہے جس پر وہ کلام (اور لفظ) دلالت نہ کر رہا ہو۔ لہٰذا (جب بھی کلام کو اس کے ظاہری معنی سے پھیرا جائے گا اس وقت) کسی ایسے قرینہ کا ہونا ضروری ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ (واقعی) کلام سے مراد یہی معنی ہے۔ ’’تعطیل‘‘ کو اس ’’العَطَل‘‘ سے لیا گیا ہے جس کا معنی خالی ہونا، چھوڑنا اور فارغ ہونا ہے،اس معنی میں قرآن کے یہ الفاظ ہیں : ﴿وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ﴾(الحج: ۴۰) (بہت سے) کنوئیں بیکار (پڑے ہیں )‘‘ یعنی ان کنوؤں کے مالکوں نے انہیں یونہی بیکار چھوڑا ہوا تھا (اور استعمال میں نہ آنے کی وجہ سے وہ سوکھ کرخشک اور بے آب ہو چکے تھے) یہاں تعطیل سے مراد رب تعالیٰ کی صفات کی نفی اور ان کے رب تعالیٰ کی ذات اقدس کے ساتھ قائم ہونے کا انکار کرنا ہے۔ تحریف و تعطیل میں فرق اور نسبت اور ان کی انواع و اقسام: (حضرات علماء نے) تحریف اور تعطیل میں یہ فرق (بیان کیا) ہے کہ تعطیل یہ اس معنی حق کی نفی کرنا ہے جس پر کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں ، جب کہ تحریف یہ نصوصِ قرآن و حدیث کی ایسی معانی باطلہ کے ساتھ تفسیر کرتا ہے جن پر وہ نصوص دلالت نہیں کرتے۔