کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 49
لانے سے پہلے لوحِ محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے: ’’رب تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر اسے ارشاد فرمایا: لکھو!۔ قلم نے عرض کیا: ’’کیا لکھوں ؟ رب تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہر ہونے والی شے کو لکھ دو۔‘‘ اسی بات کو رب تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا ہے: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا﴾ (الحدید: ۲۲) ’’کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔‘‘ _________________________________________________ اصل متن :… ((ومن الإیمان باللّٰہ الإیمان بما وصف بہ نفسہ من غیر تحریف فی کتابہ وبما وصفہ بہ رسولہ من غیر تحریف ولا تعطیل ومن غیر تکییف ولا تمثیل۔)) ’’اور یہ بات بھی رب تعالیٰ پر ایمان لانے میں سے ہے کہ ہم رب تعالیٰ کی ہر اس صفت پر بغیر کسی تحریف کے ایمان لائیں جن کو خود رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں بیان کیا ہے اور جس کو رب تعالیٰ کے پیغمبر نے بیان کیا ہے اور رب تعالیٰ کی ان صفات پر ہم کسی قسم کی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے بغیر ایمان لائیں ۔‘‘ _________________________________________________ شرح:… رب تعالیٰ کی ذات و صفات پر کسی تحریف وغیرہ کے بغیر ایمان لانا: علامہ رحمہ اللہ ’’ومن الایمان باللّٰہ…‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اجمال کی تفصیل بیان کرنا شروع کر رہے ہیں ۔ مذکورہ عبارت میں ’’من‘‘ (حرفِ جر ہے اور نحوی اعتبار سے یہ بیان کے لیے نہیں اور نہ ہی زائدہ ہے بلکہ) تبعیض [1] کے لیے ہے اور مطلب اس عبارت کا یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے اصل اول پر ایمان لانے، جو سب سے بڑا اصول اور اساس ہے، میں سے یہ بات ہے کہ وہ رب تعالیٰ کی ہر اس صفت پر (کسی قسم کی تحریف وغیرہ کے بغیر) ایمان رکھتے ہیں جو رب تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی بیان کی ہے…
[1] تبعیض کا لفظی معنی اجزاء کرنا ہے اور من کے تبعیض کے لیے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ من سے ما قبل مذکور حکم من کے مابعد یعنی مدخول کے بعض افراد کے لیے ہے ناکہ کل کے لیے۔ جیسے: ’’اخذتُ من الدراہم‘‘ ’’میں نے بعض درہم لیے‘‘ یعنی لینے کا حکم دراہم کے افراد کے بعض کے لیے ہے ناکہ کل کے لیے۔ فقط واللّٰہ اعلم۔