کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 48
وَصَّیْنَا بِہٖ اِِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾ (الشوریٰ: ۱۳) ’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے) کا نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ ’’البعث‘‘ (مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا): بعث کا لغوی معنی بھڑکانا، جوش دلانا اور حرکت دینا ہے۔ جب کہ اصطلاح شرع میں بعث سے مراد روزِ قیامت مردوں کو ان کی قبروں سے زندہ کر کے اٹھانا ہے تاکہ ان کے درمیان (ان کے کیے اعمال کا) فیصلہ کیا جا سکے۔ چناں چہ جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ بھی اس کو روزِ قیامت دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے اپنے آگے پا لے گا، اور بعث پر اس طرح ایمان لانا واجب ہے جس طرح رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کو بیان فرمایا ہے کہ بعث یہ ہے کہ جسموں کے وہ دنیاوی اجزاء جو (مٹی میں مٹی ہو کر) اپنی حقیقت گم کر بیٹھے تھے، ان سب کو جمع کر کے انہیں حیاتِ نو بخشی جائے گی اور انہیں خلقتِ جدیدہ عطا کی جائے گی۔ یاد رہے کہ جو لوگ مرنے کے بعد جسموں کو نئی حیات بخشے جانے کے منکر ہیں جیسے اہل فلسفہ اور نصاریٰ وہ کافر ہیں ، رہے وہ لوگ جو بعث کا اقرار تو کرتے ہیں مگر (اس کی تشریح اپنی مرضی سے کرتے ہیں ، چناں چہ) ان کا گمان یہ ہے کہ (روزِ محشر) رب تعالیٰ روحوں کو ایسے اجسام میں زندہ کرے گا جو دنیاوی اجسام کے علاوہ ہوں گے وہ بدعتی اور فاسق لوگ ہیں ۔ ’’القدر‘‘ (تقدیر): لفظِ ’’قدر‘‘ یہ مصدر ہے۔ اس کو دال کے فتح اور تخفیف دونوں کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس کا باب ’’ضرب یضرب‘‘ ہے، چناں چہ جب تم ایک شے کی مقدار کا احاطہ اور اندازہ کر لیتے ہو تو کہتے ہو: ’’قَدَرْتُ الشَیْئَ اَقْدِرُہُ قَدْرًا وَقَدَرًا‘‘ ’’میں نے اس شے کی مقدار کا اندازہ لگایا اور اس کو مقرر کیا۔‘‘ شرح شریف میں تقدیر سے یہ مراد ہے کہ رب تعالیٰ کو ازل سے تمام اشیاء کی تقادیر اور ان کے زمانوں کا علم ہے، پھر رب تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک شے کو اس کے بارے میں اپنے علم کے مطابق عدم سے وجود بخشا اور یہ کہ رب تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک شے کو ان کے وجود میں