کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 45
صحیح طریقے سے ایمان نہیں لاتا جو قرآن و سنت نے بتلایا ہے، اس کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا جو شخص ان میں سے کسی بھی ایک بات کا جان بوجھ کر انکار کرے گا یا قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر (کسی اور تعبیر و تشریح کے ساتھ) ان پر ایمان لائے گا، وہ کافر کہلائے گا۔ ان سب باتوں کا ذکر اس حدیث میں ہے جو ’’حدیثِ جبرئیل‘‘ کے نام سے مشہور ہے جس میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک اعرابی کی شکل میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان، اسلام اور احسان کے بارے میں سوال کیا، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’(ایمان یہ ہے) کہ تو ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور تو ایمان لائے مرنے کے بعد زندہ اٹھائے جانے پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر اور اس کی شیرینی اور کڑواہٹ پر (یعنی نفع اور نقصان پر) کہ وہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘ [1]
فرشتے (الملائکۃ):
یہ مَلاک (مَلَک) کی جمع ہے جس کی اصل مَاْلَکٌ ہے جو اَلُوْکَۃٌ سے مشتق ہے جس کا معنی پیغام ہے (اور اس کی جمع مَلَائِک اور مَلَائِکَۃٌ ہے۔ اردو زبان میں انہیں فرشتے کہتے ہیں ) یہ رب ذوالجلال کی ایک خاص مخلوق ہیں جنہیں رب تعالیٰ نے آسمانوں میں ٹھہرا رکھا ہے، اور انہیں اپنی مخلوق کے مختلف کاموں کے سر انجام دینے پر مقرر کر رکھا ہے۔ رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ رب تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں اور وہ دن رات رب تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں اور اس بات سے تھکتے نہیں ، اور نہ ہی اس سے سست پڑتے ہیں ۔ قرآن و سنت میں ان کے حق میں جن صفات و اعمال کا ذکر آتا ہے ان سب پر ایمان لانا واجب ہے اور ان کے علاوہ دیگر باتوں سے (مثلاً انہیں مؤنث ماننا، اللہ کی بیٹیاں ماننا وغیرہ باتوں سے سختی کے ساتھ) اجتناب کیا جائے۔ کیوں کہ فرشتوں پر ایمان لانا امورِ غیبیہ میں سے ہے جن میں سے ہم فقط اسی بات کو ہی جان سکتے ہیں جو اللہ اور اس کا رسول ہمیں بتلائیں ۔
آسمانی کتابیں (الکتب):
’’الکتب‘‘ یہ ’’کِتَابٌ‘‘ کی جمع ہے جو ’’الکَتْبُ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی جمع کرنا اور ملانا
[1] مسلم: کتاب الایمان باب بیان الایمان والاسلام والاحسان و وجوب الایمان باثبات قدر اللّٰہ سبحانہ وتعالی، حدیث رقم: ۱۔