کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 44
’’میری امت عنقریب تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور وہ سب فرقے دوزخ میں داخل ہوں گے سوائے ایک فرقہ کے اور یہ وہ فرقہ ہوگا جو اس (عقیدہ اور) دین پر قائم ہوگا۔ جس پر آج میں اور میرے صحابہ قائم ہیں ۔‘‘
نجات یافتہ فرقہ قیامت تک باقی رہے گا:
(ان دونوں ارشاداتِ گرامی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ طائفہ منصورہ ناجیہ قیامت قائم ہونے تک ہر دور میں معیار بن کر باقی رہے گا۔ )
لفظ ’’اہل السنۃ والجماعت‘‘ کی نحوی ترکیب اور ’’سنت و جماعت‘‘ کا معنی و مصداق:
(مذکورہ عبارت میں لفظ) ’’اہل السنۃ والجماعت‘‘ یہ ’’الفرقۃ‘‘ سے بدل [1] ہے، اور (’’السنۃ‘‘ کا لغوی معنی ہے، طریقہ خاص اور سیرت و فطرت خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔ مگر اصطلاح شرع میں ) ’’السنۃ‘‘ سے مراد وہ طریقہ ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جن کا زمانہ بدعات اور نئی نئی باتوں کے ظاہر ہونے سے پہلے ہے اور وہ اس پر قائم رہے اور ’’الجماعۃ‘‘ اصل میں چند لوگوں کے اکٹھ اور مجموعہ کو کہتے ہیں ، جب کہ یہاں مراد اس امت کے اسلاف بزرگ اور اکابر ہیں جو کہ صحابہ اور تابعین ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح حق پر جمع رہے۔
ارکانِ ایمان کی اہمیت اور ان کا حکم:
مذکورہ یہ چھ باتیں ارکانِ [2] ایمان کہلاتی ہیں ، لہٰذا جب تک کوئی انسان ان سب باتوں پر اس
[1] بدل: یہ توابع کی چھ اقسام میں سے چوتھی قسم ہے، یہ ایسا تابع ہوتا ہے کہ متبوع کی طرف جس چیز کی نسبت کی گئی ہے اس نسبت سے خود یہ بدلِ مقصود ہوتا ہے متبوع مقصود نہیں ہوتا۔ یعنی جو حکم متبوع کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، دراصل وہ تابع کی طرف منسوب ہوتا ہے اور بدل کی چار اقسام میں سے یہ پہلی قسم، ’’بدل الکل من الکل‘‘ ہے۔ ’’التسہیل السامی فی حل شرح الحجامی، ج: ۱، ص: ۵۲۴‘‘ التعریفات، اصطلاح نمبر: ۲۷۴، ص: ۳۳، ملخصاً و بتصرف۔
[2] ارکان یہ رکن کی جمع ہے، رکن کسی چیز کی جڑ، اصل، بنیاد اور اس کے اس پہلو یا حصہ کو کہتے ہیں جس پر وہ قائم ہو اور وہ اس کا سہارا ہو۔ پس رکن کسی شے کی حقیقت کے اجزاء میں سے ایک جز کو کہا جائے گا، اس تفصیل کی بنا پر رکنِ ایمان سے مراد ایمان کی حقیقت کا وہ جز اور اس کا وہ پہلو اور اس کی وہ جڑ ہے جس پر ایمان قائم ہو اور وہ ایمان کی حقیقت اور اس کی بنیاد ہو۔ اس تعریف کی روشنی میں ارکانِ ایمان میں سے کسی ایک کا انکار نقصِ ایمان کے مترادف ہوگا۔ فقط واللّٰہ اعلم۔ ہذا ما استفدت من القاموس الوحید، ص: ۶۶۶۔