کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 43
نحویوں کے نزدیک (اما کی اصل مہما ہے۔ لہٰذا) اما بعد کی تقدیر ’’مہما یکن من شیئٌ بعد‘‘ ہوگی (جس کا مطلب یہ ہے کہ) ’’حمد و ثنا کے بعد جو بات ہے۔‘‘ (وہ یہ ہے)۔ ہذا اسم اشارہ ہے، اس کے مشارٌ الیہ کا بیان: ہذا اسم اشارہ ہے جس کے ذریعے علامہ رحمہ اللہ نے ان عقائد ایمانیہ کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو انہوں نے اپنے اس قول: ’’وہو الایمان باللّٰہ… الی آخرہ‘‘ میں اجمالاً ذکر کیا ہے۔ (گویا کہ ہذا اسم اشارہ ہے اور ’’وہو الایمان باللّٰہ… مشارٌ الیہ‘‘ ہے)۔ اعتقاد کی لغوی اور معنوی تشریح: لفظِ اعتقادیہ ’’اِعْتَقَدَ کَذَا‘‘ (بابِ افتعال صحیح) سے مصدر ہے اور ایسا اس وقت بولا جاتا ہے۔ جب آدمی ایک بات کو اپنا عقیدہ بنا لیتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ آدمی نے فلاں بات پر اپنے دل کو باندھ لیا (کہ اس کا دل اس بات پر پختہ ہو گیا اور اس بات کو اس نے دل سے مان کر قلب سے اس پر مطمئن ہو گیا) اور اس بات پر وہ اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہو گیا اور لفظِ اعتقاد کی اصل عَقَدَ الْحَبْلَ سے ہے۔ جس کا معنی ہے ’’رسی کو گرہ لگانا‘‘ لیکن بعد میں یہ لفظ پختہ ارادے اور پکے عقیدے پر استعمال ہونے لگا۔ لفظِ فرقہ کا لغوی معنی اور اس کا شرعی ماخذ: لفظِ ’’فرقہ‘‘ فا کی زیر کے ساتھ ہے اور اس کا معنی لوگوں کی ایک جماعت اور گروہ ہے۔ علامہ رحمہ اللہ نے فرقہ کی صفت ’’ناجیہ منصور‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے اخذ کی ہے: ((لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ’’منصورۃ‘‘ لا یضرہم من خذلہم حتی یأتی امر اللّٰہ۔)) ’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر مظفر و منصور قائم رہے گی اور کسی کا انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دینا انہیں کوئی نقصان نہ دے گا۔ حتیٰ کہ اللہ کا امر (یعنی حادثہ قیامت) قائم ہو جائے گا۔‘‘ [1] لفظِ فرقہ کی مذکورہ صفت کا دوسرا شرعی ماخذ یہ حدیث نبوی ہے: ((مستفترق ہذہ الامۃ علی ثلاث وسبعین فرقۃ کلہا فی النار الا واحدۃ، وہی من کان علی مثل ما انا علیہ الیوم واصحابی۔)) [2]
[1] البخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث رقم: ۷۳۱۱۔ [2] الترمذی: کتاب ابواب الایمان باب افتراق ہذہ الامۃ، حدیث رقم: ۲۷۷۸۔ ۲۷۷۹۔