کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 42
فعل کا مفعولِ مطلق ہے اور مفعولِ مطلق کا استعمال اس وقت ہی درست ہوتا ہے جب اس کی صفت بھی دلائی جائے۔ اکثر اوقات یہ صفت محذوف ہوتی ہے، لیکن علامہ رحمہ اللہ نے اس کو لفظوں میں ذکر کر کے اسی نحوی قاعدہ پر متنبہ کیا ہے)۔ (صرفی اعتبار سے) یہ (لفظ اس) زَادَ یَزِیْدُ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جو (معنی)متعدی (پر دلالت کرتا) ہے (ناکہ لازم پر، چناں چہ اس کا معنی بڑھانا، زیادہ کرنا اور اضافہ کرنا ہے، ناکہ بڑھنا زیادہ ہونا اور بہت ہونا ہے۔ لہٰذا ’’مزیداً‘‘ کا معنی اضافہ شدہ ہوگا، اسی لیے اس کے ساتھ فیہ کا اضافہ ناگزیر ہے۔ (کما لا یخفی علی ذوی الافہام) چناں چہ اس کی تقدیر عبارت ’’مزیداً فیہ‘‘ ہوگی (یعنی رب تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی سلامتی نازل فرمائے جس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے)۔ _________________________________________________ اصل متن :… ((أما بعد فہذا اعتقاد الفرقۃ الناجیۃ المنصورۃ إلی قیام الساعۃ أہل السنۃ والجماعۃ، وہو الإیمان باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والبعث بعد الموت والإیمان بالقدر خیرہ وشرہ۔)) ’’اما بعد! یہ اس جماعت کے عقیدہ کا بیان ہے جسے (روزِ محشر) نجات حاصل ہوگی اور وہ قیامت قائم ہونے تک مظفر و منصور رہے گا اور اس جماعت کو ’’اہل سنت والجماعت‘‘ کہتے ہیں اور (اس طائفہ منصورۃ و فرقہ ناجیہ کا) وہ (باعثِ نجات عقیدہ) یہ ہے، اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر، مرنے کے بعد جی اٹھانے جانے پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا۔‘‘ _________________________________________________ شرح:… اما بعد کا معنی اور نحوی ترکیب: یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعے مقصود شروع کرنے پر دلالت کی جاتی ہے۔ (کہ حمد و ثنا کے بعد اس کلمہ کے ذریعے مقصد کی بات کو شروع کرتے ہیں ۔ گویا کہ یہ ’’آمدم برسرِ مقصد‘‘ کے معنی میں ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبوں اور مکاتیب میں اس لفظ کا اکثر استعمال فرمایا کرتے تھے۔ [1]
[1] ’’ابو داؤد کتاب الادب باب فی الرجل یقول فی خطبتہ اما بعد، حدیث رقم: ۴۹۷۳‘‘ اما بعد کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ کلمہ سب سے پہلے سیّدنا داؤد علیہ السلام نے استعمال فرمایا: ’’مرقاۃ شرح المشکوٰۃ: ۱/ ۴۷۔‘‘