کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 41
آل کا اطلاق کن لوگوں پر ہوگا ہے؟ لفظِ آل زیادہ تر باعزت لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (خواہ وہ لوگ دین سے اعتبار سے باعزت ہوں ۔ جیسے: ’’آلِ رسول‘‘ اور جیسے دنیاوی اعتبار سے باعزت ہوں ، جیسا کہ فرعون کے بارے میں یہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ﴾ (آل عمران: ۱۱) ’’ان کا حال بھی فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا سا ہوگا۔‘‘ یہاں فرعون کے پیروکاروں کو جو سلطنت کے امراء و زعماء تھے، آل کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے)۔ لہٰذا موچی اور حجام کی اولاد کو ’’آل‘‘ سے تعبیر نہ کیا جائے گا (کیوں کہ دنیاوی اعتبار سے یہ لوگ حقیر ہیں اور ان پیشوں سے وابستہ اکثر لوگوں کی دینی حالت بھی بڑی خستہ ہوتی ہے۔) ’’صَحْبٌ‘‘ کی تشریح: اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اصحاب رضی اللہ عنہم ‘‘ ہیں اور صحابی ہر اس شخص کو کہتے ہیں جس نے بحالتِ ایمان اپنی زندگی میں سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے نگاہیں ٹھنڈی کی ہوں پھر اس ایمان کی حالت پر اس دنیا سے چل بسا ہو۔ السلام کی لغوی اور صرفی تحقیق: السلام یہ (بابِ تفعیل) سَلَّمَ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمًا سے اسم مصدر [1] ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر ناگواری سے سلامتی کو طلب کیا۔ یہ رب تعالیٰ کا ایک نام ہے اور اس کا معنی ہے ہر قسم کے عیوب و نقائص سے براء ت اور خلاص (کہ رب تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک اور اس سے بری ہے) یا پھر اس کا معنی یہ ہے کہ رب تعالیٰ آخرت میں اپنے مومن بندوں پر سلام بھیجے گا۔ ’’مزیدًا‘‘ کی نحوی ترکیب اور صرفی تحقیق: (نحوی ترکیب کے اعتبار سے) یہ (لفظ مذکورہ مصدر) ’’تسلیمًا‘‘ کی صفت ہے (جو سَلَّمَ
[1] اسم مصدر وہ مصدر ہوتا ہے جو معنی حدثی پر دلالت تو کرتا ہو مگر اس سے دوسرے صیغوں کا اشتقاق نہ ہوتا ہو۔ جیسے لفظ ’’سبحان‘‘ ’’تحفۃ الطلبۃ: ۱۶۱‘‘ اس طرح لفظِ السلام ہے کہ یہ سلامتی دینے کے معنی حدثی پر تو دلالت کرتا ہے پر اس سے دوسرے صیغوں کا اشتقاق نہیں ہوتا اور یہ رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام ہے۔ (القاموس الوحید، ص: ۷۹۶)۔