کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 40
’’تم میں سے ایک (مسجد میں ) جب تک اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر بیٹھا (نماز کا انتظار کرتا) رہتا ہے تو فرشتے اس کے حق میں یہ کہہ کر دعا و استغفار کرتے رہتے ہیں ، اے اللہ! اس کی بخشش کر، اے اللہ! اس پر رحم کر۔‘‘ آدمیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجنا یہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے) دعا و التجاء اور تضرع و زاری کرنا ہے۔ لفظِ ’’آل‘‘ کی لغوی تحقیق: (آل کا لغوی معنی ہے کنبہ، افراد خانہ اور آدمی کے متبعین و متعلقین اور کسی شخص کی آل سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ اس کا مضبوط قرابتی رشتہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کون لوگ ہیں ؟ آلِ رسول سے کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رشتہ دار مراد ہوتے ہیں جن پر صدقہ کا مال لینا حرام ہوتا ہے اور یہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں اور کبھی اس سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو (صدقِ دل کے ساتھ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر عمل پیرا ہوں ۔ لفظِ آل کی صرفی تحقیق: (صرفی اعتبار سے) ’’آل‘‘ اصل میں ’’اہل‘‘ تھا۔ پھر ’’ھا‘‘ کو ہمزہ سے بدل دیا گیا (تو ا ء ل‘‘ ہو گیا) اب ’’ہمزہ مسلسل ہو گئے تو دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل دیا گیا‘‘ (تو ’’ال‘‘ ہو گیا۔ پھر الف کو ہمزہ میں مدغم کر دیا تو ’’ال‘‘ ہو گیا)، اور (اس بات کی دلیل کہ آل اصل میں اہل تھا، یہ ہے کہ) آل کی تصغیر [1] اُہَیل یا اُوَیل آتی ہے (اور صرف میں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ تصغیر اسماء کو اپنی اصل پر لے جاتی ہے۔ لہٰذا آل کی تصغیر اُہَیل یہ بتلاتی ہے کہ ال اصل میں اہل ہے) (اور رہ گیا صیغہ اُوْتِل تو وہ ہمزہ کے الف میں قلب ہونے کے بعد کے اعتبار سے ہے کہ جب اُئُ یْل میں دو ہمزہ متحرک جمع ہو گئے تو دوسرے ہمزہ کو واؤ متحرک سے بدل کر اُوَیْل کر دیا گیا)۔
[1] تصغیر: یہ اسم کا معنی بدلنے کی خاطر اس کے صیغہ کا بدلنا ہے اور ایسا تحقیر یا تقلیل یا تقریب یا تکریم یا تلتطیف (یعنی لطف و مہربانی) وغیرہ کا معنی حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جیسے رَجُل کو رُجَیْل پڑنا اور مراد حقیر آدمی لینا ’’التعریفات، اصطلاح نمبر: ۳۷۵، ص: ۶۴۴، تصغیر کا وزن ہمیشہ فُعَیْل‘‘ آتا ہے اور یہ وزن صرف ثلاثی مجرد کے اسماء میں تصغیر کا معنی پیدا کرنے کے لیے ہے۔ جب کہ مزید فیہ اور رباعی کے اوزان میں یہ معنی صیغہ اسم تفضیل کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔