کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 39
صفت و خصلت میں ساری انسانیت پر سبقت لے گئے ہیں ۔
رسالت کی شہادت کب کامل ہوتی ہے؟
اور یہ شہادت اس وقت ہی کامل ہوگی جب بندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے ہر امر کی اطاعت کرے اور جس بات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا ہے اس سے باز رہے۔
_________________________________________________
اصل متن :… ((صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا مَزِیْدًا۔))
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رب تعالیٰ کی رحمتیں ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رب تعالیٰ کی سلامتی ہو بے حد سلامتی جس میں (بے پناہ) اضافہ ہو۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
صلوٰۃ کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور بندوں اور فرشتوں کی صلوٰۃ میں فرق کا بیان:
’’صلوٰۃ‘‘ کا لغوی معنی ’’دعا‘‘ ہے۔ (اِس معنی میں یہ) ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ﴾ (التوبۃ: ۱۰۳)
’’اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے۔‘‘
(اب آثار و روایت میں صلوٰۃ کی نسبت ذاتوں کی طرف کی گئی ہے، رب تعالیٰ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجنا، اس طرح فرشتوں کا اور بندوں کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃبھیجنا، اب ہر ایک کی صلوٰۃ سے کیا مراد ہے اس کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے):
رب تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجنے (کا کیا مطلب ہے؟ اس) کے بارے میں صحیح ترین قول وہ ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ابو العالیہ سے بیان کیا ہے کہ رب تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجنے کا مطلب رب تعالیٰ کا اپنے فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کرنا ہے۔‘‘ [1] فرشتوں کی صلوٰۃ کی بابت مشہور قول یہ ہے کہ یہ ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں استغفار کرنا ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں آتا ہے [2] جو یہ ہے:
[1] اخرجہ البخاری: تعلیقًا بصیغۃ الجزم، کتاب تفسیر القرآن، باب قول اللّٰہ تعالی: ﴿اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾
[2] اس کو امام بخاری نے کتاب الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ و فضل المساجد، حدیث، رقم: ۶۵۹۔ میں ذکر کیا ہے۔