کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 37
اثبات کے بیان سے کہیں بڑھ کر بلیغ ہے)۔ اور (یہ تو لا الٰہ الا اللہ کی معنوی تشریح ہوئی، رہ گئی اس کی نحوی ترکیب تو) اس میں خبر کا مقدر ماننا ضروری ہے۔ اس کی تقدیری عبارت یوں ہے: ’’لَا مَعْبُوْدَ بِحَقٍّ مَوْجُوْدٌ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ’’کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق موجود نہیں ۔‘‘ ’’وحدہ لا شریک لہ‘‘ کلمہ توحید کی دلالتِ معنوی کی تاکید کے لیے ہے۔ ’’اقرارًا بہ‘‘ مفعولِ مطلق معنوی ہے جو ما قبل مذکور فعل اَشْہَدُ کے معنی کی تاکید کے لیے ہے۔ مراد دل اور زبان سے اقرار کرنا ہے۔ ’’توحیدًا‘‘ سے مراد عبادت میں رب تعالیٰ کے لیے اخلاص اختیار کرنا ہے اور مراد ایسی توحید ہے جو ارادی اور طلبی ہو اور توحید کی معرفت و اثبات پر مبنی ہو۔ ایمان کی تکمیل کے لیے توحید کی شہادت کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت و رسالت کی شہادت دینا بھی ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عبدیت و رسالت کی شہادت دینے کو رب تعالیٰ کے لیے توحید کی شہادت دینے کے ساتھ ملا کر ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ (ایمان کی تکمیل کے لیے) ان دونوں (شہادتوں ) کا ہونا لازمی اور ناگزیر ہے، اور ایسا نہیں کہ ایک شہادت دوسری شہادت سے کفایت کر جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اذان اور شہادت میں (بھی) دونوں کو ملا کر رکھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مفسرین نے اس آیت ﴿وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ﴾ (الم نشرح: ۴) ’’اور تمہارا ذکر بلند کیا۔‘‘ کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ: ’’جب بھی (اور جہاں بھی) میرا ذکر ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر میرے ساتھ ہوگا۔‘‘ [1] بندگی و عبودیت اور رسالت انسانیت کا سب سے بڑا شرف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفات کو یہاں ملا کر ذکر کیا گیا۔
[1] الدرر المنثور: ۸/ ۵۴۹۔ صح من مجاہد انہ قال فی تفسیر ہذا الاٰیۃ، ’’لا اذکر الا ذکرت معی‘‘ اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ واشہد ان محمدا رسول اللّٰہ، وقال الالبانی فی فضل الصلوۃ علی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم لابن اسحاق القاضی، ص: ۸۔ اسنادہ مرسل صحیح فہو حدیث قدسی مرسل، وہذا اخرجہ ابو یعلٰی فی مسندہ: ۲/ ۵۲۲۔ باسناد ضعیف من حدیث ابی سعید الخدری (رفعہ) ’’اذا ذکرت ذکرت معی۔‘‘