کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 36
﴿نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ﴾ (المنافقون: ۱)
’’ہم اقرار کرتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
تو رب تعالیٰ نے انہیں ان کے اس قول میں جھٹلایا (کہ اپنے اس قول میں وہ جھوٹے ہیں ) حالاں کہ وہ اپنی زبانوں سے اس بات کا اقرار کر رہے تھے (کیوں کہ زبان کے اس اقرار کے ساتھ ان کے دل کا اعتقاد ملا ہوا نہ تھا)۔
لا الٰہ الا اللہ:
یہ وہ کلمہ توحید ہے جس پر سب پیغمبر (صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہم اجمعین) بیک زبان اور متفق اللسان ہیں بلکہ یہ کلمہ سب پیغمبروں کی دعوت و رسالت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ ہر ایک پیغمبر نے اس کلمہ کو اپنی دعوت کا نقطہ آغاز اور محور بنایا۔ جیسا کہ خود ہمارے پیغمبر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں ، پس جب وہ اس کلمہ کا اقرار کر لیں گے تو وہ اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے مگر شریعت کے حق کے ساتھ (کہ اگر حقِ شریعت کے ساتھ کسی کی جان یا مال لینا پڑے تو وہ اور بات ہے) اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ [1]
لا الٰہ الا اللہ کی تشریح اور نحوی ترکیب:
یہ کلمہ ’’توحید‘‘ پر دلالت کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ کلمہ ایسی نفی اور اثبات کو مشتمل ہے جو حصر [2] کے معنی کو مقتضی ہے اور نفی اور اثبات کے ذریعے معنی حصر پیدا کرنا ’’صرف اثبات‘‘ کے معنی سے زیادہ بلیغ ہے۔ جیسے مثلاً تمہارا یہ کہنا: ’’اللہ ایک ہے‘‘ جو صرف اثبات ہے، کہنے کی بجائے ’’نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے‘‘ جو نفی اور اثبات پر مشتمل ہو کر حصر کے معنی کو پیدا کر رہا ہے، کہنا زیادہ بلیغ ہے)۔ پس ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ ایسا کلمہ ہے۔
جس کا شروع کا حصہ ’’لا الٰہ‘‘ رب تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے معبودیت و الاہیت کی نفی کرنا ہے۔ جب کہ اس کلمہ کا پچھلا حصہ ’’الا اللہ‘‘ صرف ایک اکیلے اللہ کے لیے معبودیت اور الاہیت کو ثابت کرتا ہے (اور یہ ہے وہ نفی اور اثبات جو مل کر حصر کا معنی پیدا کرتے ہیں اور یہ معنی حصر نرے
[1] البخاری: کتاب الزکوٰۃ باب وجوب الزکوٰۃ، حدیث، رقم: ۱۳۹۹۔
[2] حصر: قید اور رکاوٹ، عربی اصطلاح میں کسی حکم کو کسی ایک کے لیے ثابت کرنا اور اس کے ما سوا سب سے اس کی نفی کرنے کو حصر کہتے ہیں ۔ ’’القاموس الوحید، ص: ۳۴۶۔‘‘