کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 34
طرف اضافت موصوف کی صفت کی طرف اضافت کی قبیل سے ہے۔ چناں چہ ’’دین الحق‘‘ سے مراد ’’الدین الحق‘‘ ہے (کما لا یخفی علی ذوی الافہام و اولی العلم)۔
حق کی تحقیق:
لفظ حق ’’حَقَّ یَحِقُّ‘‘ سے مصدر ہے جس کا معنی ہے (صحیح ہونا، ثابت ہونا اور سچا ہونا) اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی بات حق اور سچ ثابت اور واجب ہو اور حق سے مراد ثابت اور واقع بات ہے اور اسی معنی کے بالمقابل لفظِ ’’باطل‘‘ ہوتا ہے۔ کیوں کہ (نہ تو وہ ثابت اور واقع ہوتا ہے اور) اس کی کوئی حقیقت (بھی) نہیں ہوتی۔
لامِ تعلیل[1] :
’’لیظہرہ‘‘ میں ’’لام‘‘ تعلیل کے لیے ہے، جو (عاملہ اور جارہ ہے اور حرفِ جارہ ہمیشہ کسی فعل کے متعلق ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں یہ لام) ماقبل (مذکور) فعل ’’اَرْسَلَ‘‘ کے متعلق ہے اور یہ فعل (مصدر) ’’الظہور‘‘ سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی بلندی اور غلبہ ہے۔ اب عبارت کا مطلب یہ بنے گا کہ رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دینِ حق کے ساتھ اس غرض کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ حجت اور برہان کے ساتھ اس دین کو سب ادیان پر غالب اور بلند کرے۔
یاد رہے کہ ’’الدین کلہ‘‘ میں لفظِ ’’الدین‘‘ پر داخل ہونے والا الف لام جنس کے لیے ہے۔ اس بنا پر تمام ادیانِ باطلہ اس میں داخل ہوں گے اور یہ سب کے سب وہ ادیان ہیں جو اسلام کے دینِ حق کے سوا ہیں ۔
الشہید کی حرفی تحقیق اور اس کے معنی لغوی کا بیان:
لفظ شہید ’’فعیل‘‘ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ شَہِیْدَ یَشْہَدُ شَہَادَۃً سے مشتق ہے پھر یا تو اس ’’شَہَادَۃً‘‘ سے مشتق جس کا معنی ’’اِعلام اور اِخبار‘‘ (یعنی خبر دینا، علم میں لانا) ہے، یا پھر اس ’’شہادۃ‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی ’’حضور‘‘ ہے۔
اب ’’کفی باللّٰہ شہیدا‘‘ کا معنی یا تو یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کی صداقت کی خبر دینے کے
[1] یہ لام عاملہ اور جارہ ہوتا ہے جو فعلِ مضارع پر داخل ہو کر اس کو نصب دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد اَنْ مقدر ہوتا ہے جو فعلِ مضارع کو نصب دیتا ہے، اور لام تعلیل پر وہ لام ہوتا ہے جس کا ما بعد اس کے ما قبل کی علت ہو۔ چناں چہ مطلب یہ ہوگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لیے بھیجا گیا تاکہ دینِ اسلام کو سب ادیان پر غالب کیا جائے۔ یعنی دینِ اسلام کو سب ادیان پر غالب کرنا علت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی۔ فقط واللہ اعلم۔