کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 33
﴿وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (الشوریٰ: ۵۲)
’’اور بے شک (اے محمد!) تم سیدھا رستہ دکھاتے ہو۔‘‘
اور کبھی ’’ہدی‘‘ توفیق اور الہام کے معنی میں بھی آتی ہے، اس وقت یہ صرف ان لوگوں کے ساتھ خاص ہوگی جن کو رب تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ﴾ (الانعام: ۱۲۵)
’’تو جس شخص کو اللہ چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘
اس معنی کے لحاظ سے رب تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت کی نفی کی ہے (کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرہ اختیار میں نہیں ) چناں چہ فرمایا:
﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ﴾ (القصص: ۵۶)
’’(اے محمد!) تم جس کو دوست رکھتے ہو ہدایت نہیں دیسکتے بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتاہے۔‘‘
اس مقام پر ہدیٰ سے مراد وہ تمام سچی خبریں ، صحیح ایمان، علم نافع اور عمل صالح ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (رب تعالیٰ سے) لے کر (ہم تک) آئے ہیں ۔
لفظِ دین کے متعدد معانی کا بیان:
یہ لفظ کئی معانی کے لیے آتا ہے، جیسے اس کا ایک معنی بدلہ اور جزا ہے۔ جیسا کہ اس ارشاد باری تعالیٰ میں ہے:
﴿مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ (الفاتحۃ: ۳) ’’بدلے کے دن کا حاکم ہے۔‘‘
اس معنی میں عربوں کا یہ قول ہے: ’’کما یَدِیْنُ الْفَتَی یُدَانُ‘‘ ’’جیسے کوئی کرے گا ویسے ہی بھرے گا۔‘‘ دین کا ایک معنی جھکنا، عاجز ہونا اور تابع و فرمانبردار ہونا ہے، کہا جاتا ہے: ’’دَانَ لَہُ‘‘ یعنی وہ اس کے لیے عاجز و فرمانبردار ہو گیا اور اس کے سامنے جھک گیا۔‘‘ اور کہا جاتا ہے: ’’دَانَ اللّٰہَ بِکَذَا یا عَلَی کَذَا‘‘ یعنی اس نے فلاں چیز کو اپنا دین بنایا جس کے ذریعے وہ اللہ کی عبادت کرتا ہے۔‘‘ (کہ یہاں دین کا معنی مذہب و ملت اور عقیدہ و طریقہ ہے)۔
یہاں دین سے مراد وہ تمام احکام اور شرائع ہیں جن کے ساتھ رب تعالیٰ نے اپنے سب پیغمبروں کو مبعوث فرمایا، چاہے ان کا تعلق اعتقاد سے ہو یا قول و فعل سے، اور لفظِ دین کی حق کی