کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 29
’’ہر وہ کلام جس کو رب تعالیٰ کی حمد اور مجھ پر درود کے ساتھ شروع نہ کیا جائے وہ ادھورا، نامکمل اور بے برکتا ہے۔‘‘ [1] بسم اللّٰه کے ذکر کے بعد حمد ذکر کرنے کی وجہ کا بیان: ایسی ہی ایک روایت ’’بسم اللہ‘‘ کے بارے میں بھی مروی ہے، اسی لیے مؤلف رحمہ اللہ نے بسم اللہ اور حمد دونوں کو (اپنی تالیف کی ابتداء میں ) جمع کر دیا تاکہ دونوں روایتوں پر عمل ہو سکے۔ (رہ گیا یہ سوال کہ ابتداء کا ذکر دونوں روایتوں میں ہے اور بیک وقت بسم اللہ اور حمد دونوں سے ابتداء ممکن نہیں تو بظاہر یہ تعارض معلوم ہوتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ) دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ۔ کیوں کہ ابتداء کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایک ابتدائے حقیقی (۲) دوسرے ابتدائے اضافی (جو مابعد کے کلام کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ پس بسم اللہ کا پہلے ذکر حقیقی ابتداء کے اعتبار سے ہے جب کہ ’’الحمدللہ‘‘ کا ذکر بسم اللہ کے بعد، اپنے مابعد کلام کے اعتبار سے ابتدائے اضافی ہے کہ بسم اللہ کے بعد بقیہ تمام کلام سے پہلے حمد ہے)۔ حمد کی لغوی اور اصطلاحی تعریف لغوی تعریف: حمد یہ ذم (اور مذمت) کی ضد ہے (جس کا معنی ہے برائی کرنا اور عیب نکالنا) کہا جاتا ہے: ’’حَمِدْتُ الرَّجُلَ اَحْمَدُہُ حَمْدًا ومَحْمَدًا وَمَحْمَدَۃً فہو مَحْمُوْدٌ وَحَمِیْدٌ‘‘ میں نے اس آدمی کی تعریف کی اور اس کو سراہا، پس وہ محمود ہے۔‘‘ (اور یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ یہ ثلاثی مجرد صحیح سے سمع یسمع کا باب ہے، اور اس کا اسم مفعول حَمِیْدٌ کے وزن پر بھی آتا ہے جو اسم مفعول کے معنی میں ہے) اور حَمَّدَ اللّٰہَ بھی کہا جاتا ہے (جو ثلاثی مزید فیہ سے بابِ تفعیل ہے) جس کا معنی ہے: ’’اس نے رب تعالیٰ کی بار بار تعریف کی اور ’’الحمدللّٰہ‘‘ کہا۔‘‘ حمد کی اصطلاحی تعریف اور حمد اور شکر میں فرق: حمد یہ زبان کے ساتھ کسی کے اختیاری اوصاف پر اس کی تعریف کرنے کو کہتے ہیں ۔ چاہے وہ وصف اختیاری نعمت ہو یا غیر نعمت (یا دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں ، ’’چاہے وہ تعریف کسی انعام
[1] ابو داؤد: کتاب الادب باب الہدی فی الکلام حدیث، رقم: ۴۸۴۰۔ ابن ماجہ: حدیث، رقم: ۱۸۹۳۔ فہو ضعیف، وحسنہ النووی فی الاذکار: ۳۳۹۔ وایضا اوردہ الالبانی فی سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، حدیث رقم: ۹۰۲۔