کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 28
رقت زیادہ پائی جاتی ہے۔‘‘ [1]
’’الرحمن‘‘ عَلَم ہے، مگر بسم اللہ میں صفت بن کر آیا ہے:
(اس مقام پر علماء نے ایک اور نہایت لطیف بحث بھی چھیڑی ہے۔ چناں چہ) بعض نے لفظِ الرحمن کو ’’بسم اللہ‘‘ میں صفت قرار نہیں دیا اور اس کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ لفظِ ’’الرحمن‘‘ رب ذوالجلال کا دوسرا ایسا نام ہے جس کا غیر اللہ پر اطلاق ناجائز ہے (اور یہ دلیل ہے کہ یہ لفظ خاص رب تعالیٰ کا نام اور عَلَم ہے لہٰذا کسی کو صرف ’’رحمن‘‘ کہہ کر نہیں پکار کر سکتے بلکہ عبدالرحمن کہنا واجب ہے) اور (نجاۃ کے یہاں یہ قاعدہ مسلم ہے کہ) اعلام کے ذریعے صفت بیان نہیں کی جاتی۔ مگر صحیح قول یہ ہے کہ یہ لفظ اپنے اندر موجود وصفیت کے معنی کے اعتبار سے (بسم اللہ میں ) لفظِ اللہ کی صفت بن کر آیا ہے، پس لفظِ رحمن رب تعالیٰ کا اسم بھی ہے اور اس کی صفت بھی اور اس کی اسمیت اس کی وصفیت کے منافی نہیں ۔ چناں چہ اپنے صفت ہونے کے اعتبار سے یہ لفظِ اللہ کے تابع بن کر (یعنی اس کی صفت بن کر) آیا ہے۔ جب کہ اپنے اسم ہونے کے اعتبار سے یہ لفظ قرآنِ کریم میں غیر تابع بن کر بھی آیا ہے بلکہ اسم عَلَم بن کر آیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہ: ۵)
’’(اللہ ) رحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘
اصل متن :… ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا۔))
’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس سچے دین کو سب دینوں پر غالب کر کے رہے اور حق ظاہر کرنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔‘‘
شرح:…
دینِ اسلام میں حمد کی اہمیت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
[1] یہ قول موضوع ہے۔ اس کو بیہقی نے ’’الاسماء والصفات: ۷۱‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ اس کے جملہ راوی کذاب ہیں ، کذب بیانی پر مبنی اس روایت کے کذاب رواۃ کا حضرت ابن عباس تک سلسلہ کذب کچھ یوں ہے: ’’محمد بن مروان عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس بہ ‘‘