کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 26
نام سے، مگر ان حضرات کا یہ قول درست نہیں کیوں کہ یہاں مراد زبان سے رب ذوالجلال کے باعزت نام کا ذکر کرنا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ (الاعلی: ۱) ’’(اے پیغمبر!) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو۔‘‘ یعنی رب تعالیٰ کی تسبیح کرو، اس کا نام لے کر، اس کے نام کو زبان سے ادا کر کے۔ چناں چہ ’’بسم اللہ‘‘ سے مراد یہ ہوا کہ رب تعالیٰ کا نام لے کر ابتداء کی جائے اور برکت حاصل کی جائے۔ لفظِ ’’اللہ‘‘ مشتق ہے ناکہ جامد: چناں چہ لفظ اللہ کے مشتق یا جامد ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ چناں چہ ایک قول یہ ہے کہ یہ جامد ہے ناکہ مشتق۔ کیوں کہ اشتقاق کے لیے مادۂ اشتقاق کا ہونا ضروری ہے اور رب ذوالجلال کا نام قدیم ہونا کہ حادث اور قدیم کا کوئی مادہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا لفظِ اللہ ان تمام اسمائے محضہ (اللہ کے نام) کی طرح ہے (جن کا کوئی مادہ نہیں ہوتا اور) جو ان صفات کو متضمن نہیں ہوتے جن کا قیام ان کے مسمیات کے ساتھ مگر صحیح یہ ہے کہ لفظ ’’اللہ‘‘ مشتق ہے البتہ اس کے مادۂ اشتقاق کے بارے میں اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ لفظ اللہ ’’اَلَہُ یَاْلَہُ اُلُوْہَۃً‘‘ (مہموز الفاء باب فتح یفتح) سے مشتق ہے۔ جس کا معنی عبادت کرنا ہے، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ لفظ ’’اَلِہَ یَاْ لَہُ‘‘ (باب سمع یسمع) سے ہے (جس کا مادہ ’’اَلَہًا‘‘ ہے) اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی حیراں و سرگرداں ہو۔ مگر صحیح قول پہلا ہے۔ اس صورت میں اَلَہَ یَاْ لَہُ کا صیغہ صفت اِلٰہٌ آتا ہے جو اسم مفعول کے معنی میں مَاْلُوْہٌ ہے۔ یعنی وہ ذات جس کی عبادت کی جائے۔ اسی لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’اللہ وہ ذات ہے جس کی الوہیت اور معبودیت اس کی تمام مخلوقات پر ثابت (اور واجب) ہے۔‘‘ [1] (بہرحال راجح قول یہ ہے کہ لفظ اللہ مشتق ہے اور اس کا اشتقاق ’’اَلَہَ یَاْ لَہُ اُلُوْہَۃً‘‘ سے ہے) اور اشتقاق کے قول کی بنا پر (لفظ اللہ) اصل میں وصف ہے، لیکن اس پر علمیت غالب آ گئی ہے اور رب تعالیٰ کے باقی اسماء کا لفظ اللہ پر اطلاق خبر اور وصف کے اعتبار سے ہوگا (کہ لفظ اللہ کو رب تعالیٰ کا اسم ذاتی اور عَلَمِ ذاتی قرار دیا جائے گا۔ جب کہ رب تعالیٰ کے باقی دو اسماء جن میں رب تعالیٰ کی صفت یا خبر کا ذکر ہے ان کا لفظ اللہ پر وصف اور خبر کے اعتبار سے اطلاق ہوگا) چناں چہ کہا جائے گا، ’’اللّٰہ رحمن رحیم سمیع علیم‘‘ ’’یعنی اللہ بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے
[1] روی ہذا الاثر ابن جریر: ۱/ ۱۲۳۔ فی تفسیر بسملۃ، وقال احمد شاکر، ’’اسناد ہذا الخبر ضعیف۔‘‘