کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 25
ممتاز اور معین کر دیتا ہے۔ لفظِ اسم کا اشتقاق: لفظِ اسم کے اشتقاق میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے اسے (مثال واوی باب ضرب یضرب وَسَمَ یَسِمُ) سِمَۃٌ (وَوَسْمًا) سے مشتق مانا ہے۔ جس کا معنی علامت (نشانی خاص طرز کا داغ، علامتِ امتیاز اور طرۂ امتیاز ہے۔ جب کہ ایک قول اس کے ’’سُمُوٌّ‘‘ سے مشتق ہونے کا بھی ہے (جو ناقص واوی باب ’’نصر ینصر‘‘ ’’سَمَا یُسْمُوْ سُمُوًّا‘‘ سے ہے۔ جس کا معنی اونچا ہونا اور بلند ہونا ہے) اور یہ قول (علماءِ نحو کے نزدیک راجح اور) مختار ہے۔ اسم کے ہمزہ کی تحقیق: (جب مختار قول کے مطابق لفظ اسم ناقص واوی ہے اور ’’سمو‘‘ سے مشتق ہے تو) اس کا ہمزہ ہمزۂ وصل [1] ہوگا (ناکہ ہمزۂ قطعی) اسم مسمّٰی کا نام نہیں : (اس مقام پر اس بات پر تنبیہ کر دینا ضروری ہے کہ) اسم خود مسمّٰی نہیں ، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، کیوں کہ اسم تو وہ لفظ ہوتا ہے جو (مسمّٰی کی ذات یا معنی مسمّٰی پر) دلالت کرتا ہے، جب کہ مسمّٰی وہ معنی ہوتا ہے جس پر اس اسم کے ذریعے دلالت کی جاتی ہے۔ دوسرے اسم ’’تسمیہ‘‘ (یعنی نام رکھنے کا فعل) بھی نہیں ۔ کیوں کہ تسمیہ تو اس شخص کے فعل کو کہتے ہیں جو نام رکھتا ہے۔ چناں چہ مثال کے طور پر عربی زبان میں کہا جاتا ہے۔ ’’سَمَّیْتُ وَلَدِیْ مُحَمَّدًا‘‘ ’’میں نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا۔‘‘ کہ یہاں ’’سَمَّیْتُ‘‘ میں ’’فعل تسمیہ‘‘ فاعل کا فعل ہے ناکہ یہ اسم ہے) ’’بسم اللہ‘‘ میں لفظِ اسم کے زائد نہ ہونے کا بیان: بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ ’’باسم اللہ‘‘ میں لفظِ اسم ایسا زائد لفظ ہے جو سیاق کلام کے خلاف ہے۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ استعانت تو خود رب تعالیٰ سے کی جاتی ہے ناکہ رب تعالیٰ کے
[1] ہمزہ وصلی وہ ہمزہ ہوتا ہے جب اس کو دوسرے لفظ کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں تو پڑھنے سے ساقط ہو جاتا ہے۔ البتہ لفظوں اور کتابت میں باقی رہتا ہے جب کہ ہمزۂ قطعی وہ ہے جو دوسرے کلمہ کو ملا کر پڑھتے وقت نہیں گرتا اور پڑھنے اور لکھنے دونوں میں آتا ہے۔ ہمزہ وصلی اور قطعی دونوں کی مثال جیسے: ﴿بِئْسَ الْاِسْمُ الفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَان﴾ (الحجرات: ۱۱) کہ اس میں لفظ ’’اسم‘‘ کا ہمزہ وصلی ہے جو دوسرے کلمہ کو ساتھ ملاتے ہوئے پڑھنے سے گر گیا۔ جب کہ لفظ ’’الایمان‘‘ میں ’’ایمان‘‘ کا ہمزہ قطعی ہے جو ملا کر پڑھتے ہوئے نہیں گرا۔