کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 244
٭ یا تو اس نے موت سے پہلے سچی توبہ کر لی تھی۔
٭ یا ایسی نیکیاں کیں جنہوں نے اس گناہ کو مٹا کے ختم کر ڈالا۔
٭ یا ان کی اسلام میں نمایاں خدمات کی بنا پر اس کو معاف کر دیا گیا۔ جیسا کہ اہل بدر اور اہل بیعت رضوان کے گناہوں کو (ان عظیم کارناموں کی بنا پر) معاف کر دیا گیا۔
٭ یا انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوئی جس کی بدولت ان کا گناہ معاف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے سب سے زیادہ حق دار اور بہرہ مند یہی حضرات تھے۔
٭ یا دنیا میں انہیں ان کی جانوں مالوں اور اولاد میں کسی ایسی آزمائش میں مبتلا کر دیا گیا جو ان کے گناہ کا کفارہ بن گئی۔
جب ہمیں ان کے محقق اور ثابت گناہوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے تو ان امور کی بابت کیا خیال ہے جو اجتہادی ہیں جن میں ثواب و خطا ہر ایک کا احتمال ہے اور جن میں ثواب پر دوہرا اجر اور خطا پر مغفرت کا وعدہ ہے۔
اگر ان گناہوں کا ان کے حد شمار سے باہر فضائل محاسن کے ساتھ موازنہ کیا جائے، تو ان کی حیثیت سمندر کے مقابلہ میں قطرے کی سی نکلتی ہے۔ پس جس اللہ نے (اپنی رسالت کے لیے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا، اس اللہ نے ان حضرات کو اپنے پیغمبر کی صحبت و رفاقت کے لیے، چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل ہیں اور اس امت کے جو سب امتوں سے افضل ہے، سب سے برگزیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں ۔
پس جو شخص بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں علامہ رحمہ اللہ کی عبارت کو پڑھے گا اسے ان جاہل اور متعصب (بدنصیبوں ) پر سخت خیرت ہو گی جنہوں نے انہیں طعن و تشنیع اور طنز و تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے اور ان کی عزتوں کے درپے ہیں اور ان کی شان گھٹانے کی ناپاک کوشش میں لگا ہے اور ان کے اجماع کو توڑنے کے لیے زور لگاتا رہا، اور ان اغراض فاسدہ کے لیے نہ جانے کیا کیا اختراعات اور بے سند خیالات پیش کر تا رہا ہے۔
_________________________________________________
اصل متن :… ومن أصول أھل السنۃ التصدیق بکرامات الأولیاء وما یجری اللّٰه علی أیدیہم من خوارق العادات فی أنواع العلوم والمکاشفات، وأنواع القدرۃ والتأثیرات، والمأثور عن سالف الأمم فی سورۃ الکہف و غیرھا عن صدر ھذہ الأمۃ من الصحابۃ والتابعین و سائر فرق الأمۃ وھی موجودۃ فیھا الی یوم