کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 24
دونوں ہو سکتا ہے، اسی لیے) بعض نے اس محذوف کو فعل جب کہ بعض نے اس کو اسم (یعنی شبہ فعل) مقدر مانا ہے (اور اس مقدر فعل یا شبہ فعل کا معنی حدثی سیاق و سباق کو ملحوظ رکھ کر متعین کیا جا سکتا ہے) مگر یہ دونوں قول مقارب (یعنی معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب قریب) ہیں (کہ چاہے فعل کو مقدر مانوا اور چاہے اسم یعنی شبہ فعل کو مقدر مانو، اس سے مقصود پر زد نہیں پڑتی) اور قرآنِ کریم میں (’’با‘‘ کے فعل یا شبہ فعل میں سے) ہر ایک (کے متعلق ہونے) کی مثال موجود ہے، جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ (العلق: ۱)
’’اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا۔‘‘
(کہ یہاں ’’با‘‘ حرفِ جارہ کا متعلق فعل ’’اقراء‘‘ ہے جو لفظوں میں موجود ہے ناکہ محذوف) اور
﴿بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖیہَا﴾ (ہود: ۴۱) ’’اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا۔‘‘
(کہ اس مثال میں ’’با‘‘ حرفِ جارہ کا متعلق ظاہر بھی ہے اور شبہ فعل ’’مجری‘‘ یعنی اسم ہے) (یاد رہے کہ پہلی مثال میں ’’با‘‘ کا متعلق متقدم جب کہ دوسری میں مؤخر ہے) اور (جب ’’با‘‘ کا متعلق مقدر ہو تو اس کو مقدم بھی مانا جا سکتا ہے اور مؤخر بھی مگر خاص ’’بسم اللہ‘‘ میں باء کے) مقدر کو مؤخر ماننا زیادہ بہتر ہے کیوں کہ رب تعالیٰ کا نام مقدم ہونے کے زیادہ لائق ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں :
۱۔ رب تعالیٰ کا نام مقدم کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔
۲۔ دوسرے جار مجرور کا مقدم کرنا تخصیص کا فائدہ دیتا ہے (یعنی جار کا مجرور کسی تخصیص کا مستحق ہے) چناں چہ یہاں جار مجرور رب ذوالجلال کے باعزت نام کی تخصیص کا فائدہ دے رہے ہیں ۔ کیوں کہ رب تعالیٰ کا نام متبرک ہے۔ (اور یہاں تخصیص کا یہ معنی ہے کہ برکت صرف رب تعالیٰ کے نام سے ہی حاصل کی جاتی ہے)۔
اسم کا لغوی اور اصطلاحی معنی:
(اسم کا لغوی معنی نام، عنوان اور شہرت ہے، اور نحویوں کی اصطلاح میں اسم اس لفظ کو کہتے ہیں جو اپنا معنی دینے میں کسی دوسرے لفظ کا محتاج نہ ہو اور اس میں تین زمانوں میں سے کوئی ایک زمانہ نہ پایا جاتا ہو۔ ان لغوی اور اصطلاحی تعریفات کی روشنی میں ہم اسم کی تعریف یوں بیان کر سکتے ہیں کہ): اسم وہ لفظ ہے جو کسی ایسے معنی کے لیے وضع کیا جاتا ہے جو معنی اسے دوسرے لفظوں سے