کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 23
اصل متن:… بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
’’شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
بسم اللہ کے آیتِ قرآن ہونے کی بابت علماء کا اختلاف اور راجح قول کا بیان:
علماء کا بسم اللہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ ہرسورت کا حصہ ہے جس سے اس سورت کو شروع کیا جاتا ہے؟ یا یہ مستقل آیت ہے جس کو دو مقاصد کے لیے نازل کیا گیا ہے:
۱۔ بسم اللہ کے ذریعے تمام سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز قائم کیا جائے۔
۲۔ بسم اللہ کو ہر سورت سے پہلے اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے برکت حاصل کی جائے۔
مگر مختار اور راجح قول دوسرا ہے کہ بسم اللہ کو سورتوں کے مابین فصل اور حصولِ برکت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔
البتہ بسم اللہ کی بابت دو باتوں پر سب علماء کا اتفاق ہے:
۱۔ ایک یہ کہ یہ سورۂ نمل کا ایک جز ہے۔ [1]
۲۔ دوسرے یہ کہ سورۂ براء ت کے آغاز میں اس آیت کو ترک کیا گیا ہے۔ کیوں کہ سورۂ انفال اور سورۂ براء ت دونوں کو ایک کر دیا گیا ہے۔
بائے بسملہ کی نحوی تحقیق:
نحوی اعتبار سے بسم اللہ کی ’’با‘‘ کو برائے ’’استعانت‘‘[2] قرار دیا گیا ہے، یہ (حرفِ جارہ ہے جو ہمیشہ کسی فعل یا شبہ فعل کے متعلق ہوتا ہے جو اکثر مذکور ہوتا ہے مگر کبھی کبھی محذوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے مذکورہ مثال، کہ یہاں ’’با‘‘ حرفِ جارہ) محذوف کے متعلق ہے۔ (جو فعل اور شبہ فعل
[1] اس سے سورۂ نمل کی آیت نمبر: ۳۰ کی طرف اشارہ ہے، جو یہ ہے: ﴿اِِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ (النمل: ۳۰)۔ ( )
[2] استعانت کا لغوی معنی ہے۔ مدد خواہی اور امداد طلبی، اور اصلاحِ نحو میں ’’با‘‘ کے استعانت کے لیے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ’’با‘‘ مدخول سے ’’با‘‘ کے ماقبل فعل کے لیے مدد طلب کی گئی ہے۔ جیسے: ’’کتبت بالقلم‘‘ ’’میں نے قلم کے ذریعے لکھا‘‘ میں ’’با‘‘ استعانت کے لیے ہے کہ اس میں ’’با‘‘ کے مدخول ’’قلم‘‘ سے ’’با‘‘ کے ماقبل مذکور فعل ’’کتابت‘‘ کے وجود میں آنے کے لیے مدد طلب کی گئی ہے۔ فقط واللہ اعلم۔