کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 223
اور وہ ان کو اپنی مشیئت سے کرتے ہیں اور اپنی مشیئت سے ترک کرتے ہیں اور یہ بات عقل، حس، شرع اور مشاہدہ سب سے ثابت ہے۔ _________________________________________________ اصل متن :… والعباد فاعلون حقیقۃ واللہ خالق أفعالھم والعبد ھو المؤمن والکافر والبر والفاجر والمصلی والصائم وللعباد قدرۃ علی أعمالھم ولھم ارادہ واللّٰہ خالقھم وخالق قدرتہم واردتہم کما قال تعالیٰ: ﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (التکویر: ۲۸،۲۹) وھذہ الدرجۃ من القدر یکذب بہا عامۃ القدریۃ الذین سماھم النبی صلي اللّٰه عليه وسلم مجوس ھذہ الأمۃ ویغلو فیھا قوم من أھل الاثبات حتی سلبوا العبد قدرتہ واختیارہ و یخرجون عن أفعال اللّٰه وأحکامہ حکمھا ومصالھا۔ پس بندے حقیقی فاعل ہیں اور اللہ ان کے افعال کا خالق ہے۔ مومن کافر، فاسق فاجر، نیک، نمازی، روزہ دار یہ بندے ہیں ، بندوں کو افعال پر قدرت اور ارادہ حاصل ہے اور اللہ ان کا، ان کے ارادہ و قدرت سب کا خالق ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:’’(یہ نصیحت ہے) اس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے۔‘‘(التکویر: ۲۸،۲۹) تقدیر کے اس درجہ کے عام قدری جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے مجوس کہا ہے،[1] منکر ہیں ، اور اس کو ثابت کرنے ولے بعض لوگوں نے اس میں غلو سے بھی کام لیا ہے کہ انہوں نے بندہ کو مسلوب اختیار والاقرار دے دیا ہے اور وہ اللہ کے احکام، افعال اور ان کی حکمتوں اور مصلحتوں سے نکل گئے ہیں ۔ _________________________________________________ شرح:… بندوں سے افعال کے صادر ہونے کو پہچاننے کا پیمانہ: اور اس سب کے باوجود اگر تم یہ جاننا چاہو اگرچہ بات یہی ہے، کہ یہ افعال بندوں سے ہی واقع ہوتے ہیں ، انہیں کیوں کر اللہ کی تقدیر میں داخل کیا جا سکتا ہے اور کیسے مشیئت الٰہی ان کو شامل ہوتی ہے؟ یہ پوچھا جائے گا،‘‘ یہ اچھے برے افعال بندے سے کس چیز کی بدولت صادر ہوئے؟ جواب ملے گا کہ اس کے ارادہ و قدرت سے، اور اس بات کا ہر ایک کو اعتراف ہے۔ پھر پوچھا
[1] اسنادہ ضعیف اخرجہ ابوداؤد فی کتاب السنۃ باب فی القدر حدیث رقم: ۴۶۹۱۔