کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 222
تعالیٰ کی عموم مشیئت کے ثبوت میں اور بندوں کو امرونہی کا مکلف بنانے میں کوئی منافات نہیں کیوں کہ رب تعالیٰ کی یہ مشیئت عامہ بندے کے اختیارِ فعل اور اس کی حریت کے منافی نہیں ۔ ﴿لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَo وَمَا تَشَآئُ وْنَ اِِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (التکویر: ۲۸،۲۹) ’’(یہ نصیحت ہے) اس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے۔‘‘ اسی طرح اس مشیئت اور اس امر شرعی کے درمیان کوئی تلازم نہیں جس کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ پس اللہ اس چیز کو بھی چاہتا ہے جو اس کو پسند نہیں اور اس چیز کو بھی پسند کرتا ہے جس کے ہونے کو اس نے چاہا نہیں ۔ پہلی کی مثال ابلیس اور اس کے چیلوں کے وجود کو چاہنا اور دوسری کی مثال کافروں کے ایمان لانے اور بدکاروں کے اطاعت گزار بننے اور ظالموں کے عدل پرور بننے اور گنہ گاروں کے توبہ کرنے کو پسند کرنا۔ اگر ان باتوں کو چاہتا تو یہ سب باتیں وجود میں آجاتیں ۔ جو اس نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا۔ اس طرح رب تعالیٰ کے سب اشیاء کے پیدا کرنے کے عموم اور بندے کے اپنے افعال کے فاعل ہونے میں بھی کوئی منافات نہیں ۔پس وہ بندہ جو اپنے فعل کے فاعل ہونے کے ساتھ موصوف ہے، وہ مومن بھی ہے کافر بھی، نیکوکار بھی ہے اور بدکار بھی اور نمازی روزہ دار بھی ہے۔ جب کہ اللہ اس کا اور اس کے فعل کا خالق ہے کیوں کہ اللہ نے اس کے اندر وہ قوت و ارادہ پیدا کیا ہے جن کی بدولت اس نے فعل کیا۔ علامہ شیخ عبدالرحمن بن ناصر آل سعدی غفرلہ فرماتے ہیں : ’’یہ بندہ ہی ہے جو روزہ نماز کرتا ہے نیکی کرتا ہے بدی کرتا ہے، نیک و بد فعل کا فاعل یہی ہے، بے شک یہ فعل اسی سے صادر ہوتے ہیں اور یقینا وہ اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نہیں ۔ اگر وہ چاہے تو ان کاموں کو نہ کرے۔ یہ بات واقعہ میں ہے جس پر کتاب و سنت کی نص آتی ہے جن میں اچھے برے عمل کو بندوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہ بندے کے افعال ہیں لہٰذا اگر تو وہ نیک ہوئے تو بندے قابل تعریف ہوں گے اور انہیں ان پر اجر ملے گا اگر وہ برے ہوئے تو عتاب بھی ہو گا اور ملامت بھی۔ پس یہ بات خوب واضح ہو گئی کہ افعال بندے کے اختیار سے اس سے ہی سرزد ہوتے ہیں