کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 221
دوسرا۔ اور اس اللہ کے سوا کوئی دوسرا رب ہی ہے۔ اس کے باوجود اس نے مخلوق اور بندوں کو اپنی طاعت اور رسولوں کی تابعداری کا حکم دیا ہے اور انہیں نافرمانی سے روکا ہے۔ رب تعالیٰ متقین، محسنین، مقسطین (عدل کرنے والوں ) سے محبت رکھتا ہے اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے راضی ہے۔ کافروں سے محبت نہیں کرتا اور نافرمان بدکار لوگوں سے ناراض ہے اور بے حیائی کا حکم نہیں دیتا اور نہ وہ اپنے بندوں کے کفر پر راضی ہے اور وہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ پس تقدیر کی یہ پہلی قسم اور درجہ خاص ہے جو اشیاء کے وجود سے متقدم و سابق ہے۔ غالی قدماء قدریہ جیسے معبد جہنمی اور غیلان دمشقی وغیرہ اس کے منکر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ امر یہ ہے (نہ کہ قدیم) تقدیر کے اس درجہ کا منکر کافر ہے کیوں کہ اس نے ضروریاتِ دین میں سے ایک معلوم بات کا انکار کیا ہے۔ جس کا ثبوت کتاب و سنت اور اجماع امت (تینوں سے) ہے۔ _________________________________________________ شرح:… تقدیر کا دوسرا درجہ: یہ بھی دو باتوں پر مشتمل ہے: ۱۔ رب تعالیٰ کی مشیئت کے عموم پر ایمان لانا اور یہ کہ جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا، اور یہ کہ جو وہ نہیں چاہتا وہ اس کے ملک و بادشاہت میں واقع نہیں ہو سکتا۔ بندوں کی نیکیاں اور بدیاں سب اس کی اس مشیئت عامہ کے تابع اور اس کے مطابق واقع ہوتی ہیں جس سے کوئی ہونے والی چیز باہر نہیں نکل سکتی چاہے اللہ کو وہ پسند ہے یا وہ اس سے ناراض ہے۔ ۲۔ اس بات پر ایمان رکھنا کہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے واقع ہوتی ہیں ، وہ اس کی مخلوق ہیں ، اس کے سوا کوئی ان کا خالق نہیں ۔ چاہے وہ بندے کے افعال ہوں یا کچھ اور، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصافات: ۹۶) ’’اور تم کو اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔‘‘ امر شرعی پر ایمان لانا واجب ہے: امر شرعی پر ایمان لانا واجب ہے اور یہ کہ رب تعالیٰ نے بندوں کو مکلف بنایا ہے۔ انہیں اپنی اور اپنے رسولوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور نافرمانی سے روکا ہے۔ اور سب اشیاء کے لیے رب