کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 219
جیسا کہ علامہ رحمہ اللہ کی ذکر کردہ حدیث میں بھی ہے کہ ’’اللہ نے قلم کو پیدا کرتے ہی سب سے پہلے اس کو یہ حکم دیا کہ لکھ۔ قلم نے عرض کیا، کیا لکھوں ؟ حکم ہوا قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے لکھ دو۔‘‘[1]
اس حدیث کے متن میں لفظ ’’اَوَّلَ‘‘ ظرف ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ اور یہ ’’قَالَ‘‘ فعل کا معمول ہے (کہ اسے نصب وہ دے رہا ہے) یعنی ’’قال لہ ذلک اول ما خلقہ‘‘ کہ اللہ نے قلم کو پیدا کرتے ہی سب سے پہلے اس کو یہ ارشاد فرمایا:
سب سے پہلے کیا پیدا ہوا؟
ایک روایت میں لفظ ’’اول‘‘ مرفوع ہے۔ اس اعراب کی بنا پر یہ مبتداء ہو گا اور قلم خبر۔ (اور اس ترکیب کے مطابق ترجمہ یہ ہو گا کہ اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا) اسی بنا پر علماء کا اس بابت اختلاف ہے کہ قلم اور عرش میں سے پہلے کس کو پیدا کیا گیا۔ علامہ ابن قیم نے اس بابت دو اقوال نقل کر کے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ عرش کو قلم سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔ چناں چہ علامہ قصیدہ نونیہ میں کہتے ہیں :
والناس مختلفون فی القلم الذی کتب القضاء بہ من الدیان
لوگوں کا اس قلم کے بارے میں اختلاف ہے جس کے ذریعے رب تعالیٰ کی طرف سے تقدیر کو لکھا گیا ہے۔
ھل کان قبل العرش او ھو بعدہ قولان عند ابی العلا الھمدانی
کہ آیا اسے عرش سے پہلے پیدا کیا گیا یا اس کے بعد۔ ابوالعلاء ہمدانی کے اس بابت دو قول ہیں ۔
والحق ان العرش قبل لانہ وقت الکتابۃ ذا ارکان
اس بابت صحیح قول یہ ہے کہ عرش کو پہلے پیدا کیا گیا جس کی دلیل یہ ہے کہ تقدیر کے لکھے جانے کے وقت عرش اپنے پایوں سمیت موجود تھا۔
وکتابۃ القلم شریف تعقبت ایجادہ من غیر فصل زمان
عرش کے پیدا کرنے کے فوراً بعد کسی زمانی وقفہ کے بغیر قلم شریف (اور اس) کی کتابت کو پیدا کیا گیا۔
[1] ابوداؤد: کتاب السنۃ باب فی القدر، حدیث رقم: ۴۷۰۰۔