کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 218
وغیرہ کہ یہ تقدیر ہے۔ غالی قدریے اس کے پہلے منکر تھے اور آج تقدیر کے منکر کم ہیں ۔
_________________________________________________
شرح:…
تقدیر پر ایمان:
اچھی بری تقدیر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر ایمان لانا، یہ ایمان کے ان ارکانِ ستہ میں سے ہے جن پر ایمان کا مدار ہے۔ جیسا کہ حدیث جبرئیل اور کتاب اللہ کی صریح آیات اس پر دلالت کرتی ہیں ۔
تقدیر پر ایمان کے درجات:
علامہ رحمہ اللہ نے یہاں تقدیر پر ایمان لانے کے دو درجات ذکر کیے ہیں اور یہ کہ ان میں سے ہر درجہ دو باتوں کو متضمن ہے۔
تقدیر کا پہلا درجہ:
تقدیر کا پہلا درجہ دو باتوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ کا علم قدیم اور محیط ہے۔ اس نے ہر شی کا احاطہ کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ جو ازل و ابد سے اس صفت علم سے موصوف ہے، وہ اس علم کے ذریعے ہر اس بات کو جانتا ہے جو آگے چل کر مخلوق کرے گی اور وہ ہو کر رہے گا اور وہ سب مخلوقات کے سب احوال کو جانتا ہے، وہ ان کی روزیوں ، عمروں ، نیکیوں اور برائیوں سب کو جانتا ہے۔ پس اعیان ہوں یا اوصاف، اور ان سے صادر ہونے والے کے افعال وغیرہ کہ یہ سب رب ذوالجلال کے ازلی علم کے مطابق ہو رہا ہے۔
۲۔ دوسرے یہ کہ رب تعالیٰ نے یہ سب کچھ لکھ کر لوحِ محفوظ میں رکھ دیا ہے۔ پس مخلوقات کی تقدیروں میں سے اصنافِ موجودات میں سے جو کچھ ہونے اور واقع ہونے والا ہے اور اوصاف احوال اور افعال بڑے ہوں یا چھوٹے میں سے جو کچھ ان کے تابع ہے وہ سب کا سب رب تعالیٰ کے علم میں ہے۔ اور اللہ نے قلم کو حکم دے کر یہ سب کچھ لکھوا دیا ہوا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’رب تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیروں کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیا جب کہ اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘[1]
[1] مسلم: کتاب القدر باب حجاج آدم و موسیٰ، حدیث رقم: ۲۶۵۳۔