کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 217
الأقلام وطویت الصحف کما قال تعالیٰ: ﴿اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ﴾ (الحج: ۷۰) وقال: ﴿مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ﴾ (الحدید: ۲۲) وھذا التقدیر التابع لعلمہ سبحانہ یکون فی مواضع جملۃ وتفصیلا فقد کتب فی اللوح المحفوظ ماشاء۔ واذا خلق جسد الجنین قبل نفخ الروح فیہ بعث الیہ ملکا فیؤمر بأربع کلمات فیقال لہ اکتب رزقہ وأجلہ وعملہ وشقی أم سعید ونحو ذلک فھذا التقدیر قد کان ینکرہ غلاۃ القدریا قدیما ومنکروہ الیوم قلیل۔
اہل سنت والجماعت کا نجات یافتہ طبقہ تقدیر کی اچھائی اور برائی پر یقین اور ایمان رکھتا ہے اور تقدیر پر ایمان رکھنے کے دو درجے ہیں جن میں سے ہر ایک درجہ دو باتوں پر مشتمل ہے۔
پہلا درجہ رب تعالیٰ پر اس بات کا ایمان رکھنے کا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کا علم رکھتا ہے اور وہ سب کے سب اس کے اس قدیم علم کے مطابق عمل کرتے ہیں جس کے ساتھ ذات باری تعالیٰ ازل اور ابد سے موصوف ہے اور وہ ان کے سب احوال کو جانتا ہے، ان کی اطاعت گزاریوں اور نافرمانیوں کو بھی اور ان کی روزیوں اور حالات کو بھی پھر اللہ نے مخلوق کی تقدیروں کو لوح محفوظ پر لکھ دیا۔ چناں چہ اللہ نے قلم کو پیدا کرتے ہی سب سے پہلے اسے یہ ارشاد فرمایا: لکھو! اس نے عرض کیا: کیا لکھوں ؟ فرمایا: ’’قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے سب لکھ دو۔‘‘ پس جو انسان کو ملتا ہے وہ اس سے رہ جانے والا نہیں تھا اور جو ملنے سے رہ جاتا ہے وہ ملنے والا نہیں تھا، قلم خشک ہو چکے اور صحیفے لپیٹ دیئے گئے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد ہے:’’کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اس کو جانتا ہے، یہ سب کچھ کتاب میں (لکھا ہوا) ہے۔ بے شک یہ سب اللہ کو آسان ہے۔‘‘
اور فرمایا:’’کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ، ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے اور یہ کام اللہ کو آسان ہے۔‘‘
یہ تقدیر اللہ کے علم کے تابع ہے جو اپنے اجمال اور تفصیل کے ساتھ اپنے مواقع میں ظاہر ہو گی۔ پس اللہ نے جو چاہا لوح محفوظ میں لکھ دیا۔ اور جب وہ جنین میں روح پھونکنے سے پہلے اس کے جسد کو بناتا ہے تو ایک فرشتہ اس کی طرف بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے۔ چناں چہ اسے کہا جاتا ہے اس کا رزق، اس کی عمر، اس عمل لکھ دے اور لکھ دے کہ یہ بدبخت ہے یا نیک بخت۔ وغیرہ