کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 216
اور فرمایا: ﴿اَیَحْسَبُ الْاِِنسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی﴾ (القیامۃ: ۳۶) ’’کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘ حکیم کی حکمت کے شایاں نہیں کہ وہ لوگوں کو یونہی بے کار چھوڑ دے، نہ انہیں (نیکی کا) امر کر ے اور نہ (برائی سے) منع کرے، پھر نہ ان (نیکی کرنے والوں ) کو اجر ملے اور نہ (برائی کرنے والوں کو) سزا ملے۔ جیسا کہ اللہ کی حکمت کے یہ بھی شایاں نہیں کہ وہ مومن اور کافر اور نیک اور فاجر کو ایک ہی پلڑے میں تول دے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ﴾ (ص: ۲۸) ’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کیا ان کو ہم ان کی طرح کر دیں گے جو ملک میں فساد کرتے ہیں یا پرہیزگاروں کو بدکاروں کی طرح کر دیں گے۔‘‘ کیوں کہ عقل سلیم اس بات کو نہیں مانتی اور اس کا شدت کے ساتھ انکار کرتی ہے۔اسی طرح رب تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے دنیا میں اپنے ایام کا ذکر کیا ہے جن کو وہ دنیا میں واقع کرتا ہے، جیسے اطاعت گزاروں کا اکرام، سرکشوں کی ذلت و رسوائی (کا بیان) البتہ جزا و سزا کی مقدار اور ان کی تفاصیل صرف (ارشاداتِ ربانی و نبوی کے) سننے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم ذات سے مروی نقولِ صحیحہ سے ہی معلوم ہو سکتی ہے جو اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے۔ صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ وعلی آلہ _________________________________________________ اصل متن :… ((وتؤمن الفرقۃ الناجیۃ۔ من أھل السنۃ والجماعۃ بالقدر خیرہ و شرہ والایمان بالقدر علی درجتین کل درجۃ تتضمن شیئین۔ فالدرجۃ الأولی الایمان بأن اللّٰہ تعالیٰ علیم بالخلق عاملون بعلمہ القدیم الذی ھو موصوف بہ أزلا وأبداً وعلم جمیع أحوالھم من الطاعات والمعاصی والأرزاق والآجال ثم کتب اللّٰه فی اللوح المحفوظ مقادیر الخلق فأول ما خلق اللّٰه القلم قال لہ: اکتب قال: ما أکتب؟ قال: اکتب ما ھو کائن الی یوم القیامۃ۔ فما أصاب الانسان لم یکن لیخطئہ وما أخطأہ لم یکن لیصیبہ جفت