کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 214
پہلی شفاعت:
یہ روزِ محشر کھڑے سب انسانوں کے لیے ہو گی تاکہ ان میں فیصلہ کیا جائے۔ یہ شفاعت عظمیٰ کہلاتی ہے۔ اور یہی وہ مقام محمود ہے جس پر سب پیغمبروں نے رشک کیا جس کا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقام پر ضرور کھڑا کرے گا۔
ارشاد ہے:
﴿عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ (بنی اسرائیل: ۷۹)
’’قریب ہے کہ اللہ تمہیں مقام محمود میں داخل کرے۔‘‘
یعنی میدان محشر میں کھڑے سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد بیان کریں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھا کریں :
((اللّٰهم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ والصلاۃ القائمۃ اٰتِ محمدا الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمود نِ الذی وعدتہ۔))
’’اے اللہ! اے اس دعوت کامل اور قائم ہونے والی نماز کے رب! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا کیجیے اور انہیں اس مقامِ محمود میں داخل کیجیے جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔‘‘[1]
دوسری شفاعت:
یہ اہل جنت کے بارے میں ہو گی کہ وہ جنت میں داخل ہوں ۔
یعنی وہ جنت میں داخل کیے جانے کے تو مستحق ہوں گے مگر انہیں داخل ہونے کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بعد ملے گی۔[2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی امتیاز:
یہ دونوں شفاعتیں یعنی میدان محشر میں کھڑے سب لوگوں کی شفاعت اور اہل جنت کے جنت میں داخل کر دیئے جانے کی شفاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی امتیاز ہیں ۔ ایک ان دوکے ساتھ مل جاتی ہے۔ یہ بعض مشرکین کے حق میں تخفیف عذاب کی شفاعت ہے (کہ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی امتیاز ہے) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں
[1] بخاری: کتاب الاذان باب الدعا عندالغداء، حدیث رقم: ۶۱۴۔
[2] مسلم: کتاب الایمان باب ادنی اھل الجنۃ منزلۃ فیھا۔ حدیث رقم: ۳۱۶۔