کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 213
شفاعت کا ثبوت: شفاعت ان امور میں سے ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں اور اس کے بارے میں وارد احادیث متواتر ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵) ’’کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر (کسی کے لیے) شفاعت کرے۔‘‘ چناں چہ اس آیت میں اجازت کے بغیر شفاعت کی نفی ہے۔ جب کہ اجازت کے ساتھ شفاعت کا اثبات ہے۔ فرشتوں کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا اِِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَرْضٰی﴾ (النجم: ۲۶) ’’اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی شفاعت کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر اس وقت کہ اللہ جس کے لیے چاہے اجازت بخشے اور (شفاعت) پسند کرے۔‘‘ رب تعالیٰ نے شفاعت صحیحہ کو بیان فرمایا ہے۔ یہ وہ شفاعت ہے جو رب تعالیٰ کی اجازت سے ہو گی اور اس کے لیے ہو گی جس کے قول و عمل سے وہ راضی ہو گا۔ معتزلہ اور خوارج کا شفاعت کا رد اور ان کے دلائل کا رد: معتزلہ اور خوارج شفاعت کو ثابت نہیں مانتے۔ ان کی دلیل یہ آیات ہیں : ﴿فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ﴾ (المدثر: ۴۸) ’’تو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘ ﴿وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ﴾ (البقرۃ: ۱۲۳) ’’اور نہ اس سے بدلا قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو کسی کی شفاعت کچھ فائدہ دے گی۔‘‘ ﴿فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ﴾ (الشعراء: ۱۰۰) ’’تو (آج) کوئی ہماری شفاعت کرنے والا نہیں ۔‘‘ تو جان لیجیے کہ ان آیات میں جس شفاعت کی نفی ہے کافروں اور مشرکوں کی شفاعت کی نفی ہے۔ اسی طرح وہ شفاعت بھی رد ہو گی جو شرکیہ ہے جس کو مشرکین اپنے بتوں کے لیے، نصاری حضرت مسیح اور راہبوں کے لیے ثابت کرتے ہیں ۔ یہ وہ شفاعت ہے جو رب تعالیٰ کے اذن و رضا کے بغیر ہو گی۔