کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 205
کی تشدید کے ساتھ) بھی کہا جاتا ہے۔ (اور مطلب اس کا بھی یہی ہے)
قیامت کبری کا اثبات اور اس کا تفصیلی بیان:
’’وتقوم الساعۃ‘‘ سے قیامت کبریٰ کو ثابت کر رہے ہیں ۔ یہ وصف تخصیص کے لیے جس سے ’’قیامت صغریٰ‘‘ سے احتراز ہو گیا جو (ہر شخص کی) موت کے وقت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ’’جس کی موت آگئی اس کی قیامت قائم ہو گئی۔‘‘[1]
قیامت کبریٰ یہ ہے کہ جب رب تعالیٰ اس دنیا کو ختم فرمانے کا فیصلہ فرمائیں گے تو اسرافیل کو صور میں ’’پہلی پھونک‘‘ مارنے کا حکم دیں گے۔ جس سے زمین و آسمان میں رہنے والے سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے سوائے ان کے جن کو رب تعالیٰ چاہیں گے (کہ ان پر بے ہوشی طاری نہ ہو) اور زمین صفا چٹ میدان اور پہاڑ ریت کے ٹیلے بن جائیں گے۔
پھر ہر وہ بات ظاہر ہو جائے گی جس کی رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور خصوصاً سورۂ تکویر اور سورۂ انفطار میں خبر دی ہے۔ یہ دنیا کا آخری دن ہو گا۔ پھر آسمان رب تعالیٰ کے حکم سے انسان کی منی کی طرح کا پانی چالیس دن تک برسائے گا۔ جس سے سب انسان اپنی قبروں سے اپنی ریڑھ کی ہڈی کے آخری مہرے سے اگنے لگیں گے۔ انسان کے جسم کا ہر حصہ قبر میں مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے سوائے اس ہڈی کے یہاں تک کہ جب ان کی (ازسرنو) تخلیق و ترکیب کا عمل پورا ہو جائے گا تو رب تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام کو صور میں دوسری پھونک مارنے کا حکم دیں گے جس سے لوگ قبروں سے زندہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس وقت کفار و منافق تو یہ کہیں گے:
﴿یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا﴾ (یٓس: ۵۲)
’’ہائے خرابی! ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے جگایا۔‘‘
جب کہ مومن یہ کہیں گے:
﴿ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ﴾ (یس: ۵۲)
’’یہ وہی تو ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ ہی تو کہا تھا۔‘‘
اس کے بعد فرشتے انہیں ننگے پاؤں (یعنی جوتوں کے بغیر) ننگے بدن (یعنی کپڑوں کے بغیر) اور بے ختنہ حالت میں (جو پیدائش کے وقت ہوتی ہے) میدان محشر کی طرف لے چلیں گے۔ قیامت جیسا کہ حدیث میں آتا ہے روزِ قیامت سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا
[1] ضعیف، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: حدیث رقم: ۱۱۶۶۔