کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 204
سب پسینے میں ڈوب جائیں گے۔ پھر ترازو قائم کیے جائیں گے جن میں بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’تو جن (عملوں کے) بوجھ بھاری ہوں گے وہ فلاح پانے والے ہیں اور جن کے بوجھ ہلکے ہوں گے وہ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود کو خسارے میں ڈالا۔‘‘ اعمال ناموں کو کھول کر پھیلا دیا جائے گا۔ اب کوئی تو اپنے اعمال نامہ کو داہنے ہاتھ سے لے گا اور کوئی بائیں ہاتھ سے اور کوئی اس کو اپنی پیٹھ پیچھے سے پکڑ لے گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور ہم نے ہر انسان کی کتاب کو (بصورت اعمال) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز وہ (کتاب) اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا (اور کہا جائے گا) کہ اپنی کتاب پڑھ لے تو آج اپنا ہی محاسب کافی ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ مخلوقات کا محاسبہ کرے گا اور اپنے مومن بندوں سے تنہائی اختیار کر کے اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا، جس طرح کتاب و سنت میں یہ بتایا گیا ہے، جہاں تک کفار کا تعلق ہے تو ان کا محاسبہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہو گا جن کی نیکیوں اور برائیوں کو تولا جائے گا، کیوں کہ وہ نیکیوں سے خالی ہاتھ ہیں ، چنانچہ ان کے گناہوں کو شمار کیا جائے گا ، انہیں اس پر (پوچھ گچھ کے لیے) روک لیا جائے گااور وہ ان گناہوں کا اقرار بھی کر لیں گے۔‘‘ _________________________________________________ شرح:…رب تعالیٰ اپنی مخلوق کا محاسبہ فرمائیں گے اور اپنے مومن کو تنہائی میں لے جا کر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائیں گے جیسا کہ رب تعالیٰ نے اس کو کتاب و سنت میں بیان کیا ہے۔ البتہ کفار کا محاسبہ اس شخص کی طرح نہ ہوگا جس کی نیکیوں اور برائیوں کو تولا جاتا ہے، کیوں کہ ان کی تو نیکیاں ہی نہیں ۔ البتہ ان کے اعمال کو ان سے گنوایا جائے گا اور ان کا اقرار کروایا جائے گا۔اور قوم نوح کے بارے میں ارشاد فرمایا: ﴿مِمَّا خَطِیْٓــَٔاتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا﴾ (نوح: ۲۵) ’’(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب غرقاب کر دیئے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا پھر دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔‘‘[1] ’’مرزبۃ‘‘ کی تحقیق: (باء کی) تخفیف کے ساتھ بڑے ہتھوڑے کو کہتے ہیں ۔ اس کو ’’اِرْزَبَّۃ‘‘ (ہمزہ اور باء
[1] اسنادہ ضعیف: اخرجہ الترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ باب ماجاء فی صفۃ حائم الحوفی، حدیث رقم: ۲۵۷۸۔