کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 171
نزدیک محل ضحک میں جا پڑنا مراد ہے جہاں حقیقت میں ضحک نہیں ، تو دراصل یہ رب تعالیٰ کی اس صفت کی نفی کرنا ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پروردگارِ عالم کے لیے ثابت کیا۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات ہے۔ رب تعالیٰ کے لیے تعجب کرنے کی صفت ثابت ہے: تیسری حدیث میں رب تعالیٰ کے لیے صفت ’’عجب‘‘ (تعجب کرنے) کو ثابت کیا گیا ہے۔ اسی معنی میں یہ حدیث بھی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رب تعالیٰ کو اس نوجوان پر تعجب ہوتا ہے جسے کھیل کود کا شوق نہ ہو۔‘‘[1] سورۂ صافات کی اس آیت ﴿بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ﴾ (الصافات: ۱۲) ’’ہاں تم تعجب کرتے ہو اور وہ تمسخر کرتے ہیں ۔‘‘ میں ایک قراء ت ’’بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ‘‘ بھی ہے جس کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے[2] کہ جس میں متکلم کی ضمیر رب تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ یعنی ’’ہاں میں تعجب کرتا ہوں اور وہ تمسخر کرتے ہیں ۔‘‘ رب تعالیٰ کے تعجب کرنے کی صحیح تفسیر: رب تعالیٰ کا تعجب کرنا اسباب کے مخفی ہونے یا امور کے حقائق سے ناواقفیت کی بنیاد پر نہیں ہوتا جیسا کہ مخلوق کے تعجب کرنے کا حال ہے بلکہ یہ ایک معنی ہے جو رب تعالیٰ کی حکمت و مشیئت (سے اور اس) کے مقتضی سے اور تعجب کرنے کے مقتضی کے وجود پر اس کی ذات کے لیے پیدا ہوتا ہے اور مقتضی سے مراد وہ شی ہے جو تعجب کیے جانے کی مستحق ہے۔ تعجب کرنا رب تعالیٰ کے آثارِ رحمت میں سے ہے: اس مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کے جس تعجب کرنے کی خبر دی ہے وہ اس کے آثار رحمت میں سے ہے۔ جو اس کے کمال میں سے ہے۔ پس جب بندوں کے بارش کے بے حد محتاج اور ضرورت مند ہونے کے باوجود بارش نہیں ہوتی اور متاخر ہو جاتی ہے تو ان پر قنوطیت اور مایوسی کا غلبہ ہونے لگتا ہے اور ان کی نظر صرف ظاہری اسباب تک محدود رہ جاتی ہے اور وہ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ اس تنگی کے بعد اس ذات کی طرف سے کوئی آسانی نہیں جو ان کے بے حد قریب ہے اور ان کی دعاؤں اور صداؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے اور ان کو قبول کرتا ہے۔ تب رب تعالیٰ کو اپنے بندوں پر تعجب ہوتاہے۔
[1] ضعیف، مسند احمد: ۴/۱۵۱۔ [2] اسنادہ صحیح: المستدرک للحاکم: ۲/۴۳۰۔