کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 170
تعالیٰ میں اس صفت کو مان لیں تو مذکورہ بالا معانی (خفت، طرب، تبختر اتراہٹ، کبر، ناز اور مستی وغیرہ) رب تعالیٰ کی ذات میں ثابت ہو جائیں گے (مگر یہ ان کی کج فہمی ہے) رب تعالیٰ ان کی تشبیہات و تعطیلات سے منزہ اور بلند و برتر ہے۔
رب تعالیٰ کے لیے صفت ’’ضحک‘‘ ثابت ہے:
(دوسری حدیث میں رب تعالیٰ کی صفت ضحک کو بیان کیا گیا ہے)۔ چناں چہ اہل سنت والجماعت مذکورہ حدیث کی بنا پر رب تعالیٰ کے اس کی شان کے مناسب صفت ضحک کو ثابت کرتے ہیں جو مخلوق کے ضحک (یعنی ہنسنے) کے بالکل مشابہ نہیں ، جو ان میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خوشی اور مستی انہیں مشتعل اور برانگیختہ کر کے ہنسنے پر ابھارتی ہے بلکہ یہ ایک معنی ہے جو رب تعالیٰ میں ضحک کے مقتضی کے پائے جانے کے وقت واقع ہوتا ہے اور یہ رب تعالیٰ کی حکمت و مشیئت سے پیدا ہوتا ہے۔
مخلوق میں ہنسنے کا سبب:
مخلوق میں ضحک کسی ایسی عجیب شی کے ادراک کے وقت پیدا ہوتا ہے جو اپنی نظائر سے خارج ہو، اس حدیث میں بھی یہی حالت مذکور ہے، کہ ایک کافر کا کسی مسلمان پر قابو پا کر اس کو قتل کر دینا بادیٔ الرائے (سرسری نظر) میں رب تعالیٰ کے اس پر سخت ناراض ہونے اور اسے دنیا و آخرت میں رسوا کرنے اور سخت سزا دینے کا موجب ہے کہ پھر اچانک رب تعالیٰ نے اس کافر کو ہدایت بخش کر اس پر احسان فرمایا اور اسے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق بخشی اور اس نے راہِ اللہ میں جہاد کر کے جامِ شہادت نوش کیا جس پر رب تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کیا۔ بے شک یہ نہایت عجیب بات ہے۔
رب تعالیٰ کے انعام کی انتہاء، قاتل مقتول دونوں جنتی:
بے شک یہ رب تعالیٰ کے بندوں پررحمت و احسان کے کمال اور فضل و کرم کی وسعت و انتہا ہے کہ ایک مسلمان اس کی راہ میں لڑ کر ایک کافر کے ہاتھوں شہادت سے سرفراز ہوتا ہے۔ اور رب تعالیٰ اس شہید کا اکرام واعزاز فرماتے ہیں ۔ ادھر اس قاتل کافر کو بھی اپنے احسان سے نواز کر اسلام لے آنے کی ہدایت اور پھر اپنی راہ میں شہید ہو جانے کی توفیق بخشتا ہے، یوں وہ دونوں قاتل اور مقتول جنت میں جا پہنچتے ہیں ۔
رب تعالیٰ کے ہنسنے کی غلط تاویل وتفسیر:
رب تعالیٰ کے ضحک کی یہ تفسیر کرنا کہ اس سے اس کی رضا یا اس کی قبولیت یا کسی شے اللہ کے