کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 169
(موت کے انتظار میں اپنے بازو پر سر رکھ کر) سو جائے۔ پھر آنکھ کھلے تو دیکھے کہ اس کی اونٹنی تو اس کے پاس موجود ہے اور اس پر کھانے پینے کا سامان (جوں کا توں محفوظ) ہے پس وہ خوشی کی شدت سے غلطی سے یہ کہہ بیٹھے کہ ’’اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں ۔‘‘ (کہ جتنا خوش یہ مسافر بے آب و گیاہ جنگل میں اپنی اونٹنی کے ملنے پر ہوا کہ فرطِ مسرت سے منہ سے کیا کا کیا کہہ بیٹھا، رب تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں )۔
اس حدیث میں رب تعالیٰ کی صفت ’’فرح‘‘ (خوش ہونے) کا اثبات ہے اور اس میں بھی وہی کلام ہے جو گزشتہ صفات میں کیا گیا کہ یہ رب تعالیٰ کی حقیقی صفت ہے جو اس کی شان کے مناسب ہے اور یہ صفت رب تعالیٰ کی قدرت و مشیئت کے تابع ہے۔ پس رب تعالیٰ میں یہ معنی جس کو ’’فرح‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اس وقت پیدا ہوتا ہے جس وقت بندہ اس کی طرف توبہ وانابت کرتا ہے اور یہ صفت رب تعالیٰ کے اپنے تائب بندے سے خوش ہونے کو اور اس کی توبہ کے قبول کر لینے کو مستلزم ہے۔
خوشی کی بندوں میں اقسام اور اللہ کا ان سب اقسام سے منزہ ہونے کا بیان:
جب ’’فرح‘‘ کی بندوں میں کئی قسمیں ہیں کہ یہ خفت (ہلکاپن) سرور (مسرت) اور طرب (مستی اور بے خودی) والی بھی ہوتی اور کبھی اتراہٹ (ناز، تبختر) اور اکڑ والی بھی ہوتی ہے تو (لازم ہوا کہ) رب تعالیٰ ’’فرح‘‘ کی ان تمام اقسام سے منزہ اور پاک ہو۔ چناں چہ رب تعالیٰ کا خوش ہونا کسی بھی طرح بندوں کے خوش ہونے کی طرح نہیں ، نہ خود فرحت کی ذات میں ، نہ اس کے اسباب میں اور نہ اس کی غایات اور مقاصد میں ہی (رب تعالیٰ کی خوشی بندوں کی خوشی کی طرح ہے)
رب تعالیٰ کی خوشی کا سبب اور اس کی غایت:
رب تعالیٰ کی خوشی کا سبب اس کی رحمت اور احسان کا وہ کمال ہے جس کے حاصل کرنے کے بندے مشتاق ہوتے ہیں اور رب تعالیٰ کی خوشی کی غایت یہ ہے کہ وہ توبہ وانابت کرنے والے بندوں پر اپنی نعمتیں تمام کرے۔
’’فرح‘‘ کی چند غلط تفسیریں :
’’فرح‘‘ کی تفسیر اس کے لازم یعنی رضا سے کرنا اور اسی طرح رضا کی تفسیر ارادۂ ثواب سے کرنا،یہ سب کی سب رب تعالیٰ کی صفت فرح و رضا کی نفی اور تعطیل ہے اور اس خطائِ تفسیر کا موجب، ان معطلہ کا رب تعالیٰ کے ساتھ سوئے ظن ہے۔ دراصل انہیں اس بات کا وہم ہوا کہ اگر ہم رب