کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 168
توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے ایک (جنگل میں ) اپنی (گم شدہ) سواری (کے پانے) پر خوش ہوتا ہے۔ ’’متفق علیہ‘‘[1] حدیث نمبر۲:’’رب تعالیٰ ان دونوں بندوں پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے مگر (قاتل و مقتول) دونوں جنت میں جاتے ہیں ۔‘‘ (متفق علیہ) [2] حدیث نمبر۳: ’’رب تعالیٰ اپنے بندے کے مایوس ہونے پر اور اپنی خیر (وبرکت) کے (اس کے) قریب ہونے پر تعجب فرماتے ہیں ، وہ تمھاری طرف دیکھتے رہتے ہیں اس حال میں کہ تم تنگ دل اور مایوس ہوتے ہو۔ پس رب تعالیٰ تم پر ہنستے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ تمھاری آسانی (اور کشادگی) قریب ہے۔‘‘ (حدیث حسن) [3] _________________________________________________ شرح:… رب تعالیٰ کی صفت ’’فرح‘‘ (خوش ہونا) کا اثبات: سب سے پہلے تو حدیث نمبر ایک کو بخاری شریف سے پورا نقل کیا جاتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ’’رب تعالیٰ اپنے مومن بندے کے توبہ کرنے سے اس مسافر آدمی سے کہیں زیادہ خوش ہوتے ہیں جو ایک سنسان اور غیر آباد زمین پر اتر گیا جو سامانِ حیات سے خالی اور اسبابِ ہلاکت سے بھرپور ہو، اور اس کے ساتھ اس کی سواری ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو۔ پس وہ (ایک جگہ آرام کرنے کی غرض سے) اس سے اترے اور سو جائے جب کہ اس کی سواری اس کے سرہانے (بندھی کھڑی) ہو۔ پھر جب وہ جاگے تو (دیکھے کہ) اس کی سواری تو (کہیں ) نکل چکی ہے، پھر وہ اس کی تلاش میں سرگرداں ہو، یہاں تک کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے جب اس کی جان پر بن آئے تو کہنے لگے کہ (میرے لیے اب یہی بہتر ہے کہ) میں اسی جگہ جا کر پڑ جاؤں جہاں (میں سویا تھا اور وہاں ) میری سواری تھی۔ یہاں تک کہ مجھے موت آجائے، پھر
[1] بخاری: کتاب الدعوات باب التوبۃ، حدیث رقم: ۶۳۰۸۔ [2] بخاری: کتاب الجہاد والسیر باب الکافر یقتل المسلم ثم سلیم قبیسط یدہ و فیقتل، حدیث رقم: ۲۸۲۶۔ [3] اسنادہ ضعیف، روہ ابن ماجۃ فی المقدمۃ باب فیما انکرت الجھمیۃ والطبرانی فی الکبیر (۱۹/۲۰۷) کلھم من طریق وکیع بن حدس قال الذھبی ھو لا یعرف قال الحافظ مقبول، والحدیث قال عنہ الالبانی فی ضعیف الجامع: ۳۵۸۵۔ ضعیف جدا۔