کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 166
’’اور ان احادیث میں سے (جو رب تعالیٰ کی صفات کے اثبات کے ذکر کو متضمن ہیں ) ایک یہ حدیث ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو ہمارا پروردگار ہر رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے، ہے کوئی جو مجھے پکارے کہ میں اس کی پکار کا جواب دوں ؟ ہے کوئی مجھ سے مانگے کہ میں اس کو عطا کروں ؟ ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اس کو بخش دوں ؟ ’’متفق علیہ‘‘[1] _________________________________________________ شرح:… رب تعالیٰ کے لیے صفت نزول ثابت ہے: اس حدیث پر دو طرح سے کلام ہے: ۱۔ اس کی نقل کی صحت کے اعتبار سے، اس کو خود علامہ رحمہ اللہ نے بیان کر دیا ہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ علامہ ذہبی اپنی کتاب ’’العلوللعلی الغفار‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’احادیث نزول متواتر ہیں جو قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں ۔ اس بنا پر ان سے انکار کی سرِمُو بھی گنجائش نہیں ۔ ۲۔ دوسرے اس حدیث کے مضمون مستفاد کے اعتبار سے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی ہے کہ رب تعالیٰ شب کے اخیر حصہ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ نزول رب تعالیٰ کی صفت ہے جو اس کی عظمت و جلال کے مناسب ہے۔ چناں چہ رب تعالیٰ کی صفت نزول مخلوق کے نزول کے مماثل نہیں جیسا کہ اس کی صفت استواء مخلوق کے مستوی ہونے کی طرح نہیں ۔ رب تعالیٰ کی صفت نزول کی بابت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نکتہ رسی: علامہ رحمہ اللہ سورۂ اخلاص کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور وہ عرفہ کی رات حاجیوں کے قریب آجاتا ہے، اور یہ کہ اس نے برکت والی وادی میں مبارک جگہ پر درخت (کے ورے) سے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کیا، اور یہ کہ وہ عرش پر مستوی ہوا اور اس وقت وہ آسمان دھواں ہو رہا تھا پس رب تعالیٰ نے زمین و آسمان دونوں کو حکم دیا کہ چلے آؤ خوشی سے یا ناگواری سے، کہ ان سب مذکورہ صفات سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ یہ افعال بھی ان افعال کی جنس میں سے ہوں جن کا ہم مشاہدہ
[1] بخاری: کتاب التوحید باب قول اللّٰه عزوجل ’’یریدون ان یبدلو اکلام اللّٰه‘‘، حدیث رقم: ۷۴۹۴۔