کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 165
معتزلہ اور فلاسفہ کا گروہ ہے۔ ۲۔ دوسری جماعت وہ ہے جو سنت کو ثابت کرتی ہے اور اس کے نقل کے صحیح ہونے کا اعتقاد بھی رکھتی ہے لیکن وہ سنت کی بھی اسی طرح تاویلیں کرنے میں لگی رہتی ہے جس طرح وہ قرآن کی تاویلیں کرنے میں لگی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ سنت کو (تاویلوں کی بھینٹ چڑھا کر) الحاد اور تحریف کے ذریعے ان کے ظاہری معانی سے ہٹا کر اپنے من چاہے معانی کی طرف نکال لے جاتی ہے۔ یہ متاخرین اشعریہ ہیں اور اس باب میں غزالی اور رازی نے بے حد وسعت سے کام لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اسی طرح ایمان لانا واجب ہے جس طرح رب تعالیٰ کی باتوں پر ایمان لانا واجب ہے: علامہ رحمہ اللہ ’’وما وصف الرسول بہ…‘‘ سے اس بات کو بیان فرما رہے ہیں کہ جس طرح ہر اس صفت پر کسی قسم کی تحریف، تعطیل، تمثیل اور تکییف کے بغیر ایمان لانا واجب ہے جس کو رب تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں بیان فرمایا ہے، اس طرح ہر اس صفت پر بھی ایمان لانا واجب ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رب تعالیٰ کی بیان فرمائی ہے اور جو اس کی ذات کے لیے واجب ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلق اللہ میں سے اپنے پروردگار کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے وہ پیغمبر ہیں جو سچے ہیں اور جن کی سچائی کو دنیا نے بیان کیا ہے۔ ((صلوات اللّٰه تعالیٰ وسلامہ علیہ وآلہ۔)) ایک نحوی فائدہ: (علامہ رحمہ اللہ کی عبارت ’’وجب الایمان بہ کذلک‘‘ میں ) ’’کذلک‘‘ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر بھی ایسا ایمان لایا جائے جو رب تعالیٰ کی باتوں پر ایمان لانے کے جیسا ہو جو تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل سے خالی ہو بلکہ ان صفات کو رب تعالیٰ کے لیے اس طور پر ثابت کیا جائے جو اس کی جلیل القدر ذات کی شان کے لائق ہو۔ _________________________________________________ اصل متن :… فمن ذلک مثل قولہ صلي اللّٰه عليه وسلم : ((ینزل ربنا الی السماء الدنیا کل لیلۃ حین یبقی ثلث اللیل الآخر، فیقول: من یدعونی، فأستجیب لہ؟ من یسألینی فأعطیہ؟ من یستغفرنی فأغفرلہ؟)) متفق علیہ۔