کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 162
حیات، سمع اور بصر وغیرہ، یا وہ فعلیہ ہیں جیسے رضا، غضب، محبت اور کراہت وغیرہ۔ اسی طرح رب تعالیٰ کے یدین اور ’’وجہ‘‘ (چہرہ) وغیرہ کے ثابت کرنے میں اور اس کے عرش پر مستوی ہونے، نزول فرمانے وغیرہ کو ثابت کرنے میں بھی کوئی فرق نہیں ۔ تمام اسلاف کا کسی قسم کی تاویل تعطیل، تشبیہ یا تمثیل کے بغیر ان صفات کے اثبات پر اتفاق ہے۔ ان اصولوں میں اہل سنت والجماعت کی مخالفت کرنے والے فرقوں کا بیان: ان اصولوں میں دو فرقوں نے اہل سنت و الجماعت کی مخالفت کی ہے۔ ۱۔ جھمیہ: …جو رب تعالیٰ کے اسماء و صفات دونوں کا انکار کرتے ہیں ۔ ۲۔ معتزلہ: …جو سب صفات کی تو نفی کرتے ہیں البتہ رب تعالیٰ کے اسماء و احکام کو ثابت کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ رب تعالیٰ علیم ہے بلا علم کے، قدیر ہے بلا قدرت کے، حی ہے بلاحیات کے وغیرہ۔ یقینا یہ قول بدترین فاسد قول ہے کیوں کہ صفت کو موصوف کے بغیر ثابت کرنا ذاتِ مجردہ کے لیے اس چیز کو ثابت کرنا جو صفت کے لیے ثابت کیا جاتا ہے عقل کے نزدیک محال ہے جیسا کہ یہ بات شرعاً بھی باطل ہے۔ رہ گئے اشعریہ اور ان کے پیروکار تو وہ سات صفات کے اثبات میں اہل سنت و الجماعت کے موافق اور ہم نوا ہیں اور وہ ان سات صفات کو ’’صفات معانی‘‘ کا نام دیتے ہیں اور وہ ان صفات کو عقل کے ساتھ ثابت کرنے کے مدعی ہیں ۔ وہ صفاتِ سبعہ یہ ہیں ، ’’حیات، علم، قدرت، ارادہ سمع، بصر اور کلام لیکن سوئے قسمت سے ان سات صفات کے علاوہ باقی صفات الٰہی کی نفی کرنے میں یہ لوگ معتزلہ کی گود میں جا گرے حالانکہ ان سب صفات کا ذکر احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ مجموعی تناظر میں یہ سب فرقے قرآن و سنت ، صحابہ اور خیرالقرون کے صفات باری تعالیٰ کے اثباتِ عام سے دُور ہیں ۔ _________________________________________________ اصل متن :… فصل: ((ثم فی سنۃ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم : فالسنۃ تفسیر القرآن، و تبینہ، و تدل علیہ، و تعبر عنہ وما وصف الرسول بہ ربہ عزوجل من الأحادیث الصحاح التی تلقاھا أھل المعرفۃ بالقبول وجب الایمان بہا کذلک۔)) ’’اسماء و صفات میں نفی و اثبات کی بابت سنت سے نصوص کے بیان میں فصل ’’پھر (رب تعالیٰ کے اسماء و صفات میں وہ صفات بھی داخل ہیں جن کا ذکر) سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے کیوں کہ سنت قرآن کی تفسیر کرتی ہے، اس کو بیان کرتی ہے اور اس (کے معانی و مرادات)