کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 161
یُنَادِیْ (پکارتا ہے) یُنَاجِیْ (باتیں کرتا ہے) کَلَّمَ (گفتگو کی) یُکَلِّمُ (گفتگو کرتا ہے) وغیرہ۔
قاعدہ نمبر ۲:…یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رب تعالیٰ کی صفات کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ صفاتِ ذاتیہ: جو اس کی ذات سے جدا نہیں ہوتیں بلکہ ازل و ابد میں اس کو لازم ہیں ان کے ساتھ رب تعالیٰ کی قدرت و مشئیت کا کوئی تعلق نہیں ۔ جیسے صفت حیات، علم قدرت، قوت، عزت، ملک، عظمت، کبریائی، مجدد جلال وغیرہ۔
۲۔ صفات فعلیہ: جن کا ہر آن ہر وقت اس کی قدرت و مشیئت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور ان صفات فعلیہ میں سے کسی ایک کا وجود اس کی قدرت و مشیئت سے ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ سے اس معنی میں ان صفات کے ساتھ موصوف ہے کہ ان افعال کی نوع تو قدیم ہے مگر اس نوع کے افراد حادث ہیں ۔ چناں چہ وہ ذات ہمیشہ سے ’’فعال لما یرید‘‘ ہے (جو چاہتا ہے کرتا ہے) اور ہمیشہ ایسا رہے گا، وہ ہمیشہ سے متکلم ہے اور باتیں کرنے والا ہے، پیدا کرتا ہے اور امور کی تدبیر کرتا ہے اور اس کے افعال اس کی حکمت و ارادہ کے تابع ہو کر تدریجاً واقع ہوتے رہتے ہیں ۔
ایک مومن پر واجب ہے کہ وہ ہر اس فعل پر جو اس کی ذات کے متعلقہ ہے اور رب تعالیٰ نے اس کی اپنی ذات کی طرف نسبت کی ہے، ایمان لے آئے۔ جیسے عرش پر مستوی ہونا، تجئیت، اتیان، آسمانِ دینا پر نزول، ہنسنا، راضی ہونا، غصہ ہونا، ناگواری کرنا، اور محبت کرنا (اور ہر اس فعل پر بھی ایمان لے آئے) جن کا تعلق اس کی مخلوق سے ہے (اور رب تعالیٰ نے ان کا اپنی نسبت سے ذکر کیا ہے) جیسے پیدا کرنا، روزی دینا، زندہ کرنا، موت دینا، اور مختلف تدبیریں کرنا۔
قاعدہ نمبر ۳:…ہر صفت کمال کو صرف اور صرف ایک اکیلے اللہ کے لیے ماننا اور یہ کہ کسی بات میں کوئی اس کا مثل و نظیر نہیں اور کوئی اس کا شریک نہیں ۔
اس بات پر وہ تمام گزشتہ مذکورہ نصوص دلالت کرتی ہیں جن میں اس بات کا اثبات ہے کہ اعلیٰ مثال صرف اکیلے اللہ کے لیے ہے اور جن میں اس کی ذات سے ہر قسم کے ہم سر، مثل، ہم رتبہ، مقابل، ہم نام اور شریک کی نفی ہے۔ اسی طرح یہ نصوص اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ اس کی ذات ہر قسم کے عیب، کمی اور آفت سے منزہ اور پاک ہے۔
قاعدہ نمبر ۴:…کتاب و سنت میں رب تعالیٰ کی جن جن صفات کا ذکر آتا ہے وہ سب کی سب ثابت ہیں اور اس میں اس بات کا کوئی فر ق نہیں کہ وہ صفات ذاتیہ ہے جیسے علم قدرت ارادہ،