کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 159
٭ رب تعالیٰ نے اپنی رؤیت کو اس بات کے ساتھ معلق کیا کہ تجلی کی حالت میں پہاڑ اگر اپنی حالت پر باقی رہتا ہے تو تم بھی زیارت کر لو گے۔ اور استقرارِ جبل ممکن ہے اور جو چیز ممکن کے ساتھ معلق ہو وہ ممکن ہوتی ہے (لہٰذا رویت کا استقرارِ جبل کے ساتھ معلق کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ رؤیت ممکن ہے۔)
٭ پھر رب تعالیٰ نے بالفعل پہاڑ پر جو کہ جمادات میں سے ہے اپنی تجلی ڈالی تو (جب جمادات پر تجلی ڈالنا ثابت ہے تو پھر) اپنے محبوبوں اور برگزیدہ بندوں کے لیے یہ تجلی ڈالنا ممتنع نہ رہا۔
معتزلہ کا ایک نحوی استدلال اور اس کا جواب:
معتزلہ نے ایک دلیل یہ بیان کی ہے کہ رب تعالیٰ نے ’’لن ترانی‘‘ فرمایا ہے جس میں لفظ ’’لن‘‘ حرفِ ناصبہ ہے جو مستقبل میں ابدالآباد کی نفی کے لیے آتا ہے، جو اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہ رؤیت کبھی واقع نہیں ہو سکتی مگر یہ ان لوگوں کی لغت عربیہ کے بارے میں کذب بیانی (اور یا وہ گوئی) ہے (کہ لفظ ’’لن‘‘ ابدالآباد کی نفی کے لیے آتا ہے) مثلاً اس آیت کو ہی دیکھ لیجیے جس میں یہ ذکر ہے کہ کفار موت کی تمنا ہرگز نہ کریں گے۔ چناں چہ فرمایا:
﴿وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدً ا﴾ (البقرۃ: ۹۵)
’’مگر یہ (اپنے اعمال کی بنا پر جو وہ آگے بھیج چکے ہیں ) کبھی موت کی تمنا نہ کریں گے۔‘‘
﴿وَنَادَوْا یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ﴾ (الزخرف: ۷۷)
’’اور پکاریں گے، اے (دوزخ کے داروغہ) مالک! تمہارے رب ہمیں موت دے دے۔‘‘
پہلے رب تعالیٰ نے لفظ ’’لن‘‘ کے ساتھ (جو بزعم معتزلہ ابدالآباد کی نفی کے لیے آتا ہے) اس بات کی خبر دی کہ کفار موت کی تمنا نہ کریں گے پھر ساتھ ہی (سورۂ زخرف میں ) یہ بھی بتلا دیا کہ وہ دوزخ میں (اس کی آفات و بلیات کو دیکھ کر) موت کی تمنا کریں گے۔ (چناں چہ اگر ’’لن‘‘ دائمی نفی کے لیے ہوتا تو کفار کا دوزخ میں موت کی تمنا کرنا کبھی ثابت نہ ہوتا۔
اس تفصیل کے بعد اب ’’لن ترانی‘‘ کا معنی یہ بنتا ہے کہ ’’(اے موسیٰ!) دنیا میں رؤیت باری تعالیٰ بشر کے کمزور ہونے کی بنا پر تم اس دنیا میں میری رؤیت نہیں کر سکتے۔‘‘ اور اگر رؤیت باری تعالیٰ بالذات ممتنع ہوتی تو رب تعالیٰ (لن ترانی فرمانے کی بجائے) ’’لا اُرَی‘‘ فرماتے، یعنی مجھے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ یا میں ایسا نہیں کہ جو دیکھا جا سکے وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اعلم۔