کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 158
’’الارائک‘‘ یہ ’’اریکۃ‘‘ کی جمع ہے جس کا معنی ’’سریر‘‘ (تخت، چارپائی) اور آراستہ تکیہ دار چوکی ہے۔ اہل ایمان کا جنت میں اللہ کی طرف دیکھنا ایک زائد انعام اور نعمت ہے: سورۂ یونس اور ق کی مذکورہ دونوں آیتوں میں ’’زیادتی‘‘ کی تفسیر ایک صحیح حدیث کے مطابق رب تعالیٰ کے چہرہ کی طرف دیکھنے سے ہے۔ اور خود قرآن کریم سے بھی اس بات کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے جو کفار کے حق میں ہے، ارشاد ہے: ﴿کَلَّآ اِِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُوْنَ﴾ (المطففین: ۱۵) ’’بے شک یہ لوگ اپنے پروردگار (کے دیدار) سے اوٹ میں ہوں گے۔‘‘ کفار کا رب تعالیٰ کے دیدار سے اوٹ میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مومنین اور اولیاء اس کو دیکھیں گے۔ اور حضرات محدثین کے نزدیک روایت کے متعلقہ وارد احادیث ’’تواتر معنوی‘‘ کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں جن سے ملحدوں اور زندیقوں کے سوا کسی کو انکار نہیں ۔ معتزلہ کے دلائل کا تفصیلی رد: معتزلہ نے رؤیت کی نفی میں دلائل نقلیہ میں سے ’’لا تدرکہ الابصار‘‘ والی آیت پیش کی ہے، مگر یہ آیت ان کے لیے دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ آیت میں ’’ادراک‘‘ کی نفی ہے جو رؤیت کی نفی کو مستلزم نہیں ۔ مراد آیت یہ ہے کہ نگاہیں اس کو دیکھیں گی مگر ان کی رؤیت اس کی ذات کا ادراک احاطہ نہ کر سکیں گی۔ جیسے عقلیں اس کے وجود سے باخبر ہیں مگر ان کا علم ذات الٰہی کا احاطہ نہیں کر سکتا کیوں کہ ’’ادراک‘‘ اس رؤیت کو کہتے ہیں جس میں احاطہ ہو اور یہ ’’رؤیت خاصہ‘‘ ہے اور (آیت مذکورہ میں اس رؤیت خاصہ کی نفی ہے اور قاعدہ مسلم ہے کہ خاص کی نفی مطلق کی نفی کو مستلزم نہیں ہوتی لہٰذا یہاں بھی) رؤیت خاصہ کی نفی رؤیت مطلقہ کی نفی کو مستلزم نہ ہوگی۔ معتزلہ نے اپنے نظریہ پر دوسرا استدلال اس آیت سے کیا ہے ’’لن ترانی‘‘ جو رب تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے فرما رہے ہیں ۔ یہ آیت بھی ان کی دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ آیت تو کئی اعتبار سے رؤیت پر دلالت کرتی ہے۔ جیسے ٭ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا رب تعالیٰ سے سوال کرنا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ موسیٰ کلیم اللہ ہیں جو ان معتزلہ سے زیادہ اس بات کو جانتے ہیں کہ باری تعالیٰ کے حق میں کون سی بات مستحیل ہے (اور کون سی غیر مستحیل) چناں چہ اگر رؤیت باری تعالیٰ ممتنع ہوتی تو وہ ہرگز اس کا سوال نہ کرتے۔