کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 157
﴿لَنْ تَرٰنِیْ وَ لٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰنِیْ﴾ (الاعراف: ۱۴۳) ’’تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو، اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے۔‘‘ معتزلہ کے قدرے قدم بقدم اشاعرہ: اگرچہ جہت کی نفی کرنے میں اشاعرہ معتزلہ کے شانہ بشانہ ہیں مگر وہ رؤیت کو ثابت کرتے ہیں ، اسی لیے رؤیت کی تفسیر بیان کرنے میں یہ (معتزلہ سے زیادہ) گم گشتہ راہ اور حیران و پریشان ہیں ، اس لیے کوئی تو ان میں سے یہ کہتا ہے کہ اہل ایمان اللہ کو ہر جہت سے دیکھیں گے، کسی کے نزدیک یہ رؤیت بصر (یعنی آنکھ) کے ساتھ نہیں بلکہ بصیرت (یعنی علم اور نور قلب) کے ساتھ ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس سے مراد انکشاف اور تجلی کی زیادتی ہے یہاں تک کہ گویا کہ وہ آنکھ کی رؤیت کی طرح ہوگی۔ علامہ رحمہ اللہ نے ان آیات کو لا کر نفی رؤیت کے عقیدہ میں معتزلہ پر حجت قائم کر دی ہے کیوں کہ پہلی آیت میں ’’النظر‘‘ مادہ کو ’’الٰی‘‘ حرفِ جر کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے اور اس صورت میں ’’النظر‘‘ ’’الابصار‘‘ (نگاہ ڈال کر اور آنکھ کے ذریعے دیکھنے) کے معنی میں ہوگا۔ چناں چہ کہا جاتا ہے ’’نَظَرْتُ اِلَیْہِ‘‘ اور ’’اَبْصَرْتُہُ‘‘ کہ ان دونوں جملوں کا معنی ایک ہے اور وہ ہر نگاہ ڈال کر دیکھنا۔ اور (مذکورہ آیت میں ) نظر کا متعلق رب تعالیٰ کی ذات ہے (تو مطلب یہ ہوا کہ روز قیامت جنت میں اہل ایمان رب تعالیٰ کو نگاہ ڈال کر دیکھیں گے ناکہ نورِ قلب اور فہم و فراست اور حس ذکاوت سے اس کی ذات کا اور اس کی تجلیات و انوارات سے اس کے وجود کا ادراک کریں گے کہ یہ خوبی تو اہل ایمان کو اس دنیا میں بھی میسر ہے۔ ) معتزلہ کے تکلّفات باردہ: معتزلہ نے جو ’’ناظرہ‘‘ کو ’’منتظرہ‘‘ کے معنی میں اور ’’الی ربھا‘‘ کو ’’الی نعمۃ ربھا‘‘ کے معنی میں لینے کا تکلف بارادہ کیا ہے یعنی ’’اس دن وہ رونق دار چہرے اپنے رب کے ثواب کے منتظر ہوں گے۔ یقینا یہ ایک مضحکہ خیز تاویل ہے۔ جنت کے تختوں پر بیٹھ کر رب تعالیٰ کی زیارت کے مزے: ’’علی الارائک ینظرون‘‘ یہ آیت اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ اہل جنت جنت میں اپنے تختوں پر بیٹھے رب تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور اس کی طرف دیکھتے ہوں گے۔