کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 155
﴿اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیمٌo فِیْ کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ﴾ (الواقعۃ: ۷۷۔۷۸)
’’یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔‘‘
اور فرمایا:
﴿بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌo فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ﴾ (البروج: ۲۱،۲۲)
’’(یہ کتاب منزل و بطلان نہیں ) بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے، لوح محفوظ میں (لکھا ہوا)۔‘‘
اور فرمایا:
﴿فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ o مَرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍ o بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ o کِرَامٍ بَرَرَۃٍ﴾ (عبس: ۱۳۔۱۶)
’’قابل ادب ورقوں میں (لکھا ہوا ہے) جو بلند مقام پر رکھے ہوئے (اور) پاک ہیں (ایسے) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکوکار ہیں ۔‘‘
لفظ قرآن کی لغوی اور صرفی تحقیق کا بیان:
لفظ قرآن اصل میں لفظ ’’قراء ت‘‘ کی طرح مصدر ہے جسے اس آیت میں لفظ ’’قرآن‘‘ بطور مصدر کے آیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے:
﴿اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا﴾ (الاسراء: ۷۸)
’’کیوں کہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے۔‘‘
یہاں قرآن سے مراد ایک ’’علم‘‘ ہے جو اس کتاب کا ہے جو اللہ کے ہاں سے اتری ہے، اور مصحف کے دو پٹھوں کے درمیان لکھی ہوئی ہے۔ جس کی تلاوت کرنا عبادت ہے اور اس کا چیلنج ہے کہ کوئی اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسی سورت بھی بنا کر نہیں لا سکتا۔
قرآن کا نزول اوّل رب تعالیٰ سے ہے:
ارشاد باری تعالیٰ: ﴿قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ﴾ (النحل: ۱۰۲) ’’کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے رب سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے نزول کی ابتداء رب تعالیٰ کے پاس سے ہے اور اس کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے رب تعالیٰ سے لیا ہے۔ جس کی کیفیت کو اللہ ہی جانتا ہے۔