کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 154
کی طرف اضافتیں ہیں (کہ کلام تو معنی ہے جب کہ بیت اور ناقہ یہ ایمان میں سے تو بھلا وہ ’’کلام‘‘ کی طرح رب تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اس کی صفت بن قائم کیسے ہو سکتا ہیں۔فافھم)
بلاشبہ یہ آیات معتزلہ کے اس قول کے خلاف حجت ہیں کہ کلام مخلوق ہے جو ذات باری تعالیٰ سے جدا ہے۔
قرآن کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے کا صحیح مفہوم:
یہ آیات اس بات پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے قرآن کو ایسی آواز کے ساتھ فرمایا جس کو جبرئیل نے سنا، اور وہ اس قرآن کو لے کر اسی طرح نازل ہوئے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کو پہنچایا جس طرح اللہ تعالیٰ سے سنا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم عربی میں ہے، کلام الٰہی ہے، اللہ کے ہاں سے اترا ہے، غیر مخلوق ہے، اسی سے شروع ہوا ہے اور اسی کی طرف لوٹتا ہے۔ رب تعالیٰ اس کے ساتھ حقیقتاً کلام فرماتے ہیں ، یہ اس کا حقیقی کلام ہے یہ غیر اللہ کا کلام نہیں ۔
کسی کے پڑھنے یا لکھنے سے قرآن قرآن ہونے سے نکل نہیں جاتا:
جب لوگ قرآن پڑھتے ہیں یا اس کو صحیفوں میں لکھتے ہیں تو اس سے کلام الٰہی ہونے سے نکل نہیں جاتا کیوں کہ کلام کی حقیقی اضافت اسی کی طرف کی جاتی ہے جس نے اس کی ابتداء کی ہوتی ہے، ناکہ اس کی طرف کلام کی اضافت کی جاتی ہے جو اس کو ادا کرتے ہوئے (دوسرے تک) پہنچاتا ہے۔ قرآن کا اس کے حروف و معانی کے ساتھ اپنے الفاظ کے ساتھ رب تعالیٰ نے کلام فرمایا ہے۔ قرآن کی کوئی شی بھی غیر اللہ کا کلام نہیں اور نہ یہ جبرئیل علیہ السلام کا کلام ہے اور نہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اور نہ ان کے سوا کسی اور کا ہے اور رب تعالیٰ نے اپنی آواز کے ساتھ اس کا تکلم فرمایا ہے۔
البتہ اس کو پڑھتے اپنی آواز میں ہیں ۔ لہٰذا مثلاً جب ایک شخص ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ پڑھتا ہے تو اس کو (منہ سے) سنا جانے والا یہ کلام اللہ کا ہے ناکہ خود اس کا۔ البتہ اس نے اس کو پڑھا اپنی آواز میں ہے ناکہ اللہ کی آواز میں ۔
قرآن اللہ کی کتاب بھی ہے:
جس طرح قرآن اللہ کا کلام ہے، وہ اس کی کتاب بھی ہے کیوں کہ رب تعالیٰ نے اس کو لوحِ محفوظ میں لکھا ہے اور اس لیے بھی کہ یہ مصاحف میں لکھا ہوا ہے، چناں چہ فرمایا: