کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 153
اور فرمایا:’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے قول کو بدل دیں ، کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی طرح اللہ نے پہلے سے فرما دیا ہے۔‘‘
اور فرمایا:’’اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے، پڑھتے رہا کرو، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ۔‘‘
اور فرمایا:’’بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر باتیں جن میں اختلاف کرتے ہیں بیان کر دیتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:’’اور یہ کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے مبارک ہے۔‘‘
اور فرمایا:’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے وہ دبا اور پھٹا جاتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:’’اور جب ہم کوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں اور اللہ جو کچھ نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے، تو (کافر) کہتے ہیں کہ تم تو (یونہی) اپنی طرف سے بنا لاتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں اکثر نادان ہیں ۔ کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ (قرآن) مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لیے تو (یہ) ہدایت اور بشارت ہے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) کو ایک شخص سکھاتا ہے۔ مگر جس کی طرف (تعلیم کی) نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے۔‘‘
_________________________________________________
شرح:…
قرآن کریم کلام اللہ ہے:
مذکورہ بالا سب آیات اس بات کو بتلاتی ہیں کہ وہ قرآن جس کی تلاوت کی جاتی ہے، جس کو سنا جاتا ہے اور جو دو پٹھوں والی جلد کے درمیان لکھا ہوا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ فقط عبارت یا کلام اللہ کی حکایت نہیں جیسا کہ اشعریہ کا گمان ہے اور رب تعالیٰ کی طرف اس کی اضافت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ اس کی صفت ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور یہ (اضافت یعنی لفظ ’’کلام اللہ‘‘ یہ) بیت اور ناقہ کی اضافت کی طرح نہیں (جیسے بیت اللّٰہ اور ناقۃ اللّٰہ) کہ یہ ذات باری کی طرف ایسے معنی کی اضافت ہے جو ذات باری تعالیٰ کے لیے اس معنی کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے، بخلاف بیت اور ناقہ کی اضافتوں کے کہ وہ ایمان کی رب تعالیٰ