کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 151
فرمائی اور حقیقت میں پردے کے پیچھے سے کسی فرشتے کے واسطے کے بغیر ان سے باتیں کیں ۔
کلام الٰہی کی بابت اشاعرہ کے نظریہ کا تفصیلی ردّ:
یہ آیات اشاعرہ کے اس خیال کا رد ہیں کہ کلام ایک معنی ہے جو نفس کے ساتھ حرف اور صوت کے بغیر قائم ہے۔ان سے پوچھا جائے کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اس کلام نفسی کو کیسے سن لیا؟ اگر وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ رب تعالیٰ نے ان کے قلب میں ان معانی کا القاء فرما دیا جن کا وہ موسیٰ کے ساتھ کلام کرنا چاہتے تھے، تو پھر اس بات میں موسیٰ علیہ السلام کی کیا خصوصیت باقی رہ گئیں (جو انہیں خاص کلیم اللہ کہا جاتا ہے)
اگر وہ یہ جواب دیں کہ رب تعالیٰ نے درخت یا ہوا وغیرہ میں کلام کو پیدا فرما دیا تھا تو پھر لازم آئے گا کہ موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنے والا وہ درخت وغیرہ تھا جس نے (معاذ اللہ) یہ کہا ﴿اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ﴾ (طہ: ۱۲)’’‘میں تو تمھارا پروردگار ہوں ۔‘
اسی طرح یہ آیات اشاعرہ کے اس نظریہ کا بھی رد ہیں کہ ’’کلام ایک معنی ہے جو ازل میں تھا، جس میں سے اس کی ذات میں کچھ بھی حادث نہیں ہوا۔‘‘ کیوں کہ رب تعالیٰ تویہ فرما رہے ہیں : ﴿وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ﴾ (الاعراف: ۱۴۳) ’’کہ جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر کوہ طور پر آئے اور ان کے پروردگار نے ان سے بات کی۔‘‘ کہ یہ آیت سیدنا موسیٰ کے مقررہ وقت پر کوہ طور پر پہنچنے پر کلام کے حدوث کا فائدہ دے رہی ہے۔
یہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَ نَادَیْنٰہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ﴾ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے طور کی داہنی طرف پہنچنے پر ندا کے حدوث پر دلالت کر رہا ہے اور ندا تو وہ آواز ہی ہوتی ہے جو سنی جا سکے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ نَادٰیہُمَا رَبُّہُمَآ اَلَمْ اَنْہَکُمَا عَنْ تِلْکُمَا الشَّجَرَۃِ﴾ (الاعراف: ۲۲)
’’تب ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا۔‘‘
یہ آیت آدم و حواء کے بارے میں ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے انہیں ندا کرنے کا ذکر ہے اور یہ ندا ان سے خطا کے سرزد ہونے کے بعد واقع ہوئی تھی جو قطعا حادث ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ یَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ (القصص: ۶۵)