کتاب: عقیدہ اہل سنت والجماعت(شرح عقیدہ واسطیہ) - صفحہ 149
حیات لازم ہے، جیسا کہ اشاعرہ کا قول ہے۔ بلکہ رب تعالیٰ کی صفت کلام اس کی قدرت و مشیئت کے تابع ہے۔ رب تعالیٰ نے کس کس کو پکارا اور کس کس کو پکارے گا: رب تعالیٰ نے آواز کے ساتھ موسیٰ کو پکارا، آدم و حوا کو پکارا، روز قیامت اپنے بندوں کو پکارے گا۔ رب تعالیٰ آواز کے ساتھ وحی کے ذریعے کلام کرتے ہیں لیکن وہ حروف و اصوات جن کے ساتھ رب تعالیٰ تکلم فرماتے ہیں ، وہ اس کی صفت ہے، مخلوق نہیں اور وہ مخلوق کے حروف و اصوات کے بھی مشابہ نہیں ۔ جیسے رب تعالیٰ کا علم، جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور بندوں کے علم کے مثل نہیں کیوں کہ رب تعالیٰ اپنی کسی صفت میں بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ۔ اللہ کے سب سے سچے ہونے کی علت کا بیان: سورۂ نساء کی یہ دونوں آیات اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ کوئی رب تعالیٰ سے بڑھ کر بات کا سچا ہو، بلکہ رب تعالیٰ ہر اس بات میں جس کی وہ خبر دیتا ہے، ہر ایک سے بڑھ کر سچا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ذات کا علم ان چیزوں کی حقیقتوں کو سب سے زیادہ محیط، شامل اور ضبط کرنے والا ہے جن کی وہ خبر دیتا ہے اور وہ ہر اعتبار سے ان اشیاء کی ماہیات کو جانتا ہے جب کہ مخلوق کا علم ایسا نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ﴾ (المائدۃ: ۱۱۶) ’’اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب اللہ فرمائے گا، اے عیسی بن مریم!‘‘ روز قیامت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام: یہ روز قیامت کے ایک واقعہ کی حکایت ہے جب رب تعالیٰ اپنے رسول اور کلمہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کریں گے کہ یہ جو نصاریٰ نے آپ کو اور آپ کی والدہ کو الٰہ بنا رکھا تھا کیا اس بات کا انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر انہیں اور ان کی والدہ کو الہ بنا لیں ۔ دراصل یہ سوال سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی براء ت کے اظہار اور اس کذب و بہتان کے ان کند ذہن گمراہوں کے ماتھے پر لکھ دینے کے لیے ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾ (الانعام: ۱۱۵) ’’اور تمہارے رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں ۔‘‘